آپریشن ہیروف

365

وہ ایک مزدور تھا اتنا غریب کہ جس کے خاندان نے ساری زندگی ایک کمرے میں گزار دی۔ چھے بچوں کا باپ جس کے پاس ایک ہی کمرہ تھا بارشوں میں جہاں پانی بھر جاتا تھا اور ان کا خاندان اسی میں گزارا کرتا۔ مارے جانے والے سب ہی غریب غربا تھے ایک عورت جس کے ساتھ دو بچے بھی تھے۔ اس کے شوہر کو بس سے اُتار لیا گیا۔ اس کے بچے اپنے باپ کے بارے میں کہتے رہے کہ ہمارے بابا ابھی تک نہیں آئے۔ بغیر کسی قصور کے لوگوں کو گولیاں مار کر قتل کردیا گیا پھلوں سے بھرے ٹرک جلادیے گئے۔ بھاگنے والے لوگوں پر پیچھے سے فائرنگ کی گئی۔ کتنے ہی زخمی حالت میں میں گرے پڑے رہے اور گزر گئے۔ مسلح افراد لوگوں کی شناختی دستاویزات دیکھ کر فیصلے کرتے رہے کہ کن کن کو قتل کرنا ہے مارے گئے مسافروں ڈرائیوروں اور مزدوروں کا قصور ان کے نزدیک پنجابی اور پٹھان ہونا تھا۔ یہ اتنا کافی جرم تھا کہ جس پر انہیں قتل کی لازمی سزا دی گئی۔ یقینا یہ ایک انتہا درجے کا ظلم تھا۔ بلوچستان کی علٰیحدگی پسند تنظیموں نے خونیں کارروائیوں کا سلسلہ دو عشروں قبل شروع کیا۔ بلوچستان میں حالیہ حملے گزشتہ کئی برسوں میں سب سے زیادہ وسیع اور ہلاکت خیز پیمانے میں کیے گئے۔ ان حملوںکی ذمے داری مسلح علٰیحدگی پسند گروپ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی ہے۔ ان حملوں کے دوران پولیس اسٹیشنوں، ریلوے لائنوں اور شاہراہوں پر حملے کیے گئے۔ بے گناہ غریبوں کو قتل کیا اور قومی املاک کو نقصان پہنچایا۔

بی ایل اے کے جانب سے کیے گئے یہ حملے سیاسی راہ نما اکبر بگٹی کی اٹھارویں برسی کے موقع پر کیے گئے۔ ان حملوں کو انہوں نے ’’آپریشن ہیروف‘‘ کا نام دیا۔ اس نام سے روسی ناموں کی جھلک آتی ہے۔ علٰیحدگی پسند تنظیم نے شاید یہ نام اس لیے بھی رکھا ہو کہ ان میں روس کی کچھ شمولیت ظاہر ہو تاکہ کشیدگی دور تک پھیلے۔۔۔

بی ایل او علٰیحدگی پسند تنظیم بلوچ روایات کے برخلاف خواتین کو اپنے سوفٹ امیج کے لیے بھی استعمال کررہی ہے ماہ رنگ اور سمی بلوچ کی شکل میں دوسری طرف خواتین کو خودکش بمباروں کی صورت میں استعمال کررہی ہے جو کہ بلوچوں کے روایات کے بالکل برخلاف ہے۔ بلوچ تہذیب میں عورت کو ایک خاص وقار حاصل ہے اگر دو قبائل کے درمیان جنگ ہوجائے اور کسی ایک فریق کی خاتون صلح کے لیے آجائے تو جنگ وہیں روک دی جاتی ہے۔ مخالف قبیلے کا سربراہ احترام کے طور پر اپنی چادر عورت کے سر پر ڈال دیتا ہے۔ بلوچ قبائل میں عورت کو عزت و توقیر دینا اپنی اخلاقی برتری تصور کیا جاتا ہے۔ دو قبائل کے درمیان دشمنی اور قتل و غارت گری ختم نہ ہورہی ہو تو کوئی قبیلہ اپنی خواتین کو یقینی اپنی عزت کو فریق مخالف کے پاس بھیج دیتا ہے دوسرا قبیلہ خواتین کی بات سن کر قبول کرتا ہے ان کے سر پر چادر ڈال کر واپس بھیجتا ہے۔ اس کو قبیلہ اپنی اخلاقی برتری اور فخر کا باعث جانتا ہے۔ بی ایل او شدت پسند تنظیم کی جن بلوچ خواتین نے خود کش دھماکے کیے ان کے خاندان میں سے کوئی کبھی لاپتا رہا نہ کسی کی مسخ شدہ لاش ملی۔ ماہل بلوچ ہوں یا شادی بلوچ دونوں کے ہاں گورنمنٹ کے ملازم باپ بھائی اور شوہر کی شکل میں موجود تھے۔ ان خواتین کے گھر والے ان کے خود کش حملوں پر حیران اور دکھی ہیں۔

یہ کیسی بلوچ تنظیمیں اور گروہ ہیں جو خواتین کو خودکش حملوں کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ یہ پڑھی لکھی خواتین جن کو بلوچ خواتین کی تعلیم و ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا تھا یوں ان کے چنگل میں پھنسی کے جان قربان کر ڈالی حرام موت کو گلے لگا لیا۔ بلوچ مزاحمت کار کہتے ہیں کہ وہ آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اسی طرح غریب مزدوروں اور عام آدمی کو قتل کرکے وہ کون سی آزادی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ دراصل وہ اس طرح لوگوں کو خوفزدہ اور میڈیا پر کوریج چاہتے ہیں یہ دونوں مقاصد ان کو حاصل ہوتے ہیں لیکن بحیثیت ایک مسلمان انہیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ایک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ خدا کو انتہائی ناراض کردینے والا عمل ہے۔

دوسری طرف حکومت کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ شدت پسندی کا کوئی فوجی حل نہیں ہوتا۔ بات چیت کرنے سے بات سمجھ میں آتی ہے خاص طور سے سیاسی استحکام اور پارلیمنٹ کے ذریعے بات کرنے سے نظام پر اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ مجید برگیڈ نے گوادر اور خاص طور سے چینیوں پر حملوں کا ٹارگٹ بنایا ہے۔ بلوچ قوم پرست غیر ملکیوں کے ساتھ طے پانے والے معاہدوں کو ’’صوبے کی اسٹرٹیجک‘‘ مفادات کے خلاف قرار دیتے ہیں‘‘۔ ساری دنیا میں غیر ملکی کمپنیوں سے معاہدے کیے جاتے ہیں آخر اُن کو کیا خدشات ہیں؟ کیا شناخت کا مسئلہ ہے؟؟ یا معاہدوں میں اپنی قوم کے نقصانات انہیں نظر آتے ہیں؟؟

حقیقت میں انہیں اپنی قوم کے فائدے اور ترقی سے کوئی لینا دینا ہے ہی نہیں۔۔۔ ورنہ وہ نہ تو پڑھے لکھے نوجوانوں اور خواتین کو جنگ کی بھینٹ چڑھاتے نہ ہی بے گناہوں کو قتل کرتے بلکہ باقاعدہ بات چیت کے لیے بلوچستان کو ترقی کی راہ پر آگے بڑھاتے۔ بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور علٰیحدگی پسند غیر ملکی فنڈز کے ذریعے غیروں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ بلوچ تعلیم یافتہ نوجوانوںکو سوچنا چاہیے۔