سندھ حکومت کے ہاتھوں کراچی کی تباہی

198

کراچی میں حالیہ بارشوں کے بعد شہر کی حالت انتہائی ابتر ہوچکی ہے۔ مرکزی شاہراہوں، گلیوں اور محلوں کا بیش تر حصہ تباہی کا منظر پیش کررہا ہے اور سڑکیں شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ ہر طرف بڑے بڑے گڑھے بن گئے ہیں، جنہوں نے شہریوں کے لیے سفر کو مشکل ترین بنادیا ہے۔ سیوریج کا نظام بھی مکمل طور پر مفلوج ہوچکا ہے جس سے صورتِ حال مزید سنگین ہوگئی ہے۔ یہ حالت صرف بارش کی وجہ سے نہیں بلکہ سندھ حکومت کی ناقص منصوبہ بندی اور بدعنوانی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ کراچی کی سڑکیں جنہیں حال ہی میں تعمیر کیا گیا تھا، چند ماہ کے اندر ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئیں۔ خبر کے مطابق شارع فیصل، جو شہر کی مرکزی شاہراہ ہے، وہ بھی اذیت بن چکی ہے۔ قیوم آباد سے شارع فیصل تک ایکسپریس وے، جس کی تعمیر پر 50 کروڑ روپے خرچ کیے گئے تھے، وہ بھی گڑھوں سے بھر چکی ہے۔ ابھی سال کے شروع کی بات ہے جب محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کی مانیٹرنگ ٹیم نے شہر میں جاری ترقیاتی کاموں کی قلعی کھولی تھی، جس کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کلک پروجیکٹ کے تحت 32 ارب روپے کے منصوبوں میں غیر معیاری کام اور گھپلوں کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ رپورٹ ایک سنگین صورتِ حال کی نشاندہی کرتی ہے کہ اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود عوام کو بنیادی سہولتیں میسر نہیں۔اس پس منظر میں امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے درست کہا ہے کہ پیپلزپارٹی اہل ِ کراچی سے بدلہ لے رہی ہے، سولہ سال سے سندھ حکومت صوبے میں موجود ہے، 49 کروڑ روپے نالوں کی صفائی کے لیے رکھے تھے لیکن مئی سے کوئی کام نہیں ہوا، وزراء ڈیفنس میں تصاویربناتے ہیں، عوامی مسائل حل نہیں کرتے۔کراچی کی موجودہ صورتِ حال المناک اور تکلیف دہ ہے جسے مزید نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ضروری ہے کہ بارش کے بعد کراچی کی سڑکوں کی تعمیرات میں شفافیت اور معیار کو یقینی بنایا جائے، ٹائونز کو خصوصی بجٹ دیا جائے، تاکہ شہریوں کو بنیادی سہولتوں کے لیے مزید مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ پیپلز پارٹی حکومت کو فوری طور پر ان مسائل کا حل نکالنا ہوگا۔