گیارہ ماہ

297

معذور وہیل چیئر پر چھوٹے بچے عورتیں سامان کے تھیلے تھامے تیزی سے عمارتوں کے کھنڈروں کے بیچ راستے پر چلتے جارہے ہیں۔ پیچھے سے بندوق کی آوازیں ساتھ چھوٹے بچوں کے رونے کی آوزیں آرہی ہیں۔ یہ مناظر غزہ کے مختلف کیمپوں سے انخلا کی تصاویر میں اسرائیل اور کسی جگہ سے بے گھر فلسطینیوں کو انخلا کا حکم دے دیتا ہے یہاں تک کہ مریضوں ان کے ساتھیوں اور ہزاروں بے گھر افراد ٹوٹی پھوٹی عارضی پناہ گاہیں چھوڑ کر دربدر بھاگنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اگست کے پہلے تین ہفتوں کے دوران اسرائیلی قابض فوجوں نے ڈھائی لاکھ لوگوں کو پناہ گاہیں چھوڑنے کا حکم دیا۔

اقوام متحدہ کے ایک سینئر اہلکار نے یہ بتایا کہ غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کی کارروائیاں روک دی گئی ہیں۔ یعنی اقوام متحدہ کا اتنا زور بھی اسرائیل پر نہیں چلتا کہ وہ بے گھر فلسطینیوں کو دربدر کرنے سے منع کرے۔ اقوام متحدہ دنیا کو بتا رہی ہے کہ غزہ کے انیس لاکھ شہری بے گھر ہوچکے ہیں۔ ان میں سے دس لاکھ شہری ایسے ہیں جن کو دوبارہ نقل مکانی کے کرب اور اذیت سے گزرنا پڑ رہا ہے کیونکہ اسرائیلی فوج انہیں جبری انخلا کا حکم دے رہی ہے۔ انخلا ایک اضافی مشکل ہے جبکہ کھانے اور پانی کی قلت ہے۔ غزہ کے لوگوں تک امداد نہیں پہنچ پارہی۔ اقوام متحدہ دنیا کو اس اطلاع کے ساتھ یہ بات بھی بتا رہی ہے کہ امداد پہنچانے کے لیے غزہ اور مصر کے درمیان رفح کراسنگ کو کھولا جانا چاہیے۔ اسلامی ملک تو ہیں ہی ریت کے ذرے لیکن اقوام متحدہ کا بھی یہ حال ہے کہ وہ جہاں چاہتی ہے فوج بھیجتی ہے لیکن غزہ کے لوگوں کے فوج نہیں بھیج سکتی یہاں تک امداد پہنچانے کے لیے رفح کراسنگ کھلوانے پر بھی اس کا زور نہیں چلتا۔

غزہ میں سات ماہ کی جنگ کے بعد اسرائیلی فوج نے چھے مئی کو رفح کراسنگ میں زمینی آپریشن کا آغاز کیا تھا۔ اسرائیل کا کہنا تھا کہ رفح پر قبضے اور حماس کی بچ جانے والی بٹالین کو ختم کیے بغیر فتح ناممکن ہے۔ اسرائیل اپنی ان دیکھی ظالم فتح کے لیے نہتے بے گھر فلسطینیوں پر بم باری کا حربہ اختیار کرتا رہتا ہے۔ اور پھر دنیا بھر اور اقوام متحدہ کی مذمت کے جواب میں کہتا ہے کہ وہ حماس کے کمانڈروں کو نشانہ بنارہا ہے۔

ایمنسٹی کی رپورٹ کہتی ہے کہ اسرائیل کی قابض فوج شہریوں اور بے گھر افراد سے بھرے علاقوں پر زیادہ تباہی پھیلانے والے بموں کا استعمال کررہا ہے جس سے خاندانوں کے خاندان لمحوں میں راکھ بن جاتے ہیں۔ شہریوں کو ایسے مہلک ہتھیاروں سے نشانہ بنانا شدید ترین جنگی جرم ہے۔ اسرائیل کا یہ دعویٰ کہ ان شہریوں سے بھری جگہوں میں حماس یا اسلامی جہاد کے مزاحمت کار ہیں شہریوں کی حفاظت کی ذمے داری سے اسرائیل کو فارغ نہیں کرتا نہ اس کے جرم پر پردہ ڈالتا ہے۔ سات اکتوبر سے اسرائیلی فوج نے امریکی اور مغربی امداد سے غزہ پر منظم نسل کشی مسلط کر رکھی ہے جس میں اب تک ایک لاکھ تینتیس ہزار فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے ہیں ان میں زیادہ تعداد معصوم بچوں اور خواتین کی ہے۔ دس ہزار سے زیادہ افراد ایسے ہیں کہ جن کے بارے میں کچھ پتا نہیں یعنی وہ لاپتا ہیں۔ 27 اگست تک اسرائیل کی فلسطینیوں کی نسل کشی کی بھیانک مہم کو تین سو چھبیس روز گزر گئے ہیں۔ روز کی بنیادوں پر غزہ میں بمباری کرنا قابض غارت گر اسرائیلی فوج کی روز مرہ کی بات ہے۔

غاصب افواج ایک طرف غزہ پر بمباری کررہی ہے۔ دوسری طرف مغربی کنارے کے علاقوں میں نہتے فلسطینیوں کو قتل کررہی ہے۔ تیسری طرف غرب اردن کے مختلف شہروں میں زمینی اور فضائی آپریشن کررہی ہے۔ یہ سب پوری دنیا کے سامنے امریکی اور مغرب کی حمایت سے ہورہا ہے۔ عالمی برادری کی خاموشی اسے قتل و غارت میں مزید اضافے پر اکسا رہی ہے۔ فاشسٹ اسرائیل کے یہ جنگی جرائم گیارہ ماہ سے لگاتار جاری ہیں اس سب کے بعد اسرائیلی وزیر کا یہ مطالبہ آتا ہے کہ مسجد اقصیٰ میں ایک یہودی عبادت گاہ قائم کی جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا امت مسلمہ اب بھی خاموش رہے گی یا مسجد اقصیٰ کی حفاظت کا فریضہ انجام دینے کے لیے قدم اٹھائے گی؟