بھیرہ واقعہ کون کس قدر ذمے دار؟؟

407

وہ ایک ایک پیکٹ کو اٹھا کر بغور دیکھتا اور واپس رکھ دیتا، میں حیرانی سے اسے دیکھ رہا تھا کہ اسے کوئی چیز پسند کیوں نہیں آرہی، مجھے اپنی طرف متوجہ دیکھ کر اس نے پرجوش انداز میں مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا، محمد تم کہاں ہو، میں اس محلے میں منتقل ہوگیا ہوں میں نے اپنے سابقہ پڑوسی جس کا تعلق مصر سے تھا کو جواب دیا اور پوچھا کہ آج خیریت ہے یہاں سے شاپنگ ہورہی ہے حالانکہ آپ کے گھر پاس ایک بڑی سپر مارکیٹ ہے ارے نہیں بھائی میں بلدیہ میں ملازمت کرتا ہوں اور اس بات کو یقینی بنانا کہ مارکیٹ میں کوئی چیز زائد المیعاد نہ ہو میری جاب ہے۔ اچھا اسی لیے مجھے آج تک کوئی چیز زائد المیعاد نظر نہیں آئی میں نے حیران ہوتے ہوئے جواب دیا، کیونکہ میری عادت ہے کہ جب بھی کوئی چیز خریدتا ہوں تو اس کے اجز ترکیبی اور تاریخ ضرور چیک کرتا ہوں، جی ہاں ہم ہر چھوٹی بڑی مارکیٹ میں جاکر اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ زائد المیعاد اشیا فروخت نہ ہوں، حکومتی عملہ عوام الناس کے تحفظ کے لیے ہر وقت چوکنا اور متحرک رہتا ہے اس نے تبسم کے ساتھ جواب دیا۔

کئی سال پہلے شارجہ کی ایک چھوٹی سی گروسری میں پیش آیا یہ واقعہ مجھے بھیرہ موٹروے پر پیش آنے سانحہ پر یاد آگیا، جس میں زائدالمیعاد اشیا کھانے سے ایک ہی خاندان کے 4 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ موٹروے پر خاص طور بھیرہ سروس ایریا کے آس پاس حادثات معمول بنتے جارہے ہیں، بدقسمتی سے حادثات کی صورت میں قریب ترین اسپتال تحصیل ہیڈ کوارٹر بھیرہ ہے جو جدید سہولتوں سے عاری ہے، بالخصوص حادثات کی صور ت میں زیادہ تر مریضوں کو 70 کلومیٹر دور سرگودھا ریفر کردیا جاتا ہے، اتنی دیر میں چاہے مریض اگلی دنیا کا مسافر ہی بن جائے، جیسے اس واقعے میں واحد زندہ بچ جانے والے شخص نے کہا کہ اگر متاثرین کو بروقت طبی امداد دی جاتی تو شاید کوئی بچ جاتا۔ میں اس پلیٹ فارم کے توسط سے وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز اور وزیر اعظم پاکستان سے ملتمس ہوں کہ برائے کرم تحصیل ہیڈ کوارٹر بھیرہ کو جدید سہولتوں سے مزین کیا جائے کیونکہ موجود ہ صورتحال میں ایسا کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

میری طرح ہر پاکستانی کی خواہش اور دعا ہوگی کہ یہ واقعہ آخری ہو اور اس کے بعد ریاستی مشینری جو پہلے سے فعال ہے اس قدر فعال ہو جائے کہ چھوٹی گروسریوں/ کھوکھوں پر فروخت ہونے والی اشیا بھی حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق ہوں، لیکن کیا ایسا پہلی بار ہوا ہے، آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حلال فوڈ کی کیا صورت حال ہے اور عوام الناس کی اس سلسلے میں کیا ذمے داری ہے۔

ملک میں حلا ل فوڈ کی صورتحال: اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حلال فوڈ اتھارٹی کا قیام 2016 میں عمل میں لایا گیا اور سال 2018 میں سینیٹ کی کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی جس کے سربراہ جناب سینیٹر مشتاق احمد تھے کے اجلاس میں وزرات کے حکام نے انکشاف کیا گیا کہ وطن عزیز میں غذائی اجناس میں حرام چیزوں کی شناخت کا کوئی نظام نہیں، ملک میں حرام اشیا سے بنی چاکلیٹ، لپ اسٹک، ٹوتھ پیسٹ، برگرز سرعام فروخت ہو رہے ہیں، جس پر کوئی کنٹرول نہیں، حلال فوڈ اتھارٹی کے قیام کے دوسال کے باوجود نہ ڈی جی ہے اور نہ ہی کوئی عملہ جس کی وجہ سے مشکوک چیزوں کی روک تھام ممکن نہیں، سور کے گوشت اور چربی سے 375 آئٹم بنے ہوئے ہیں، لپ اسٹک، ٹوتھ پیسٹ، برگرز، پیزا حرام اشیا سے بنے ہوئے ہیں جنہیں ملک بھر میں کھایا جا رہا ہے۔

آج کیا صورتحال ہے: آج 2024 میں اللہ کے فضل و کرم سے حلال فوڈ اتھارٹی فعال ہے، مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری حلال فوڈ اتھارٹی اس قدر فعال ہوجائے کہ گلی محلوں میں فروخت ہونے والی اشیا بھی ان کی نظروں سے اوجھل نہ ہوں۔ حلال فوڈ اتھارٹی اس بات کو یقینی بنائے کہ ہر پیکٹ پر اس کے درست اجزا اور درست ایکسپائری تاریخ درج ہو۔

عوام کی کیا ذمے داری ہے: ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں سات اشاریہ نو فی صد حلال خوراک استعمال ہورہی ہے جس میں پاکستان کا حصہ ایک فی صد سے بھی کم ہے، حلال و حرام کا فرق مٹانے کے لیے دنیا بھر میں 1600 ای کوڈ بانٹے گئے ہیں جن کو ڈی کوڈ کرکے معلوم ہوسکتا ہے کہ مجوزہ خوراک حلال ہے کہ حرام۔ عوام الناس کچھ بھی خریدنے سے پہلے اس کے اجزائے ترکیبی، اس کی ایکسپائری تاریخ بغور دیکھ لیں اور اگر اس میں ای کوڈ استعمال کیا گیا ہے تو گوگل پر اس کی تحقیق کرلیں۔ اس کا طریقہ کار بہت آسان ہے۔ گوگل پر سرچ بار میں ای کوڈ ویرفائر لکھیں، ایک نئی سرچ بار کھلنے پر اس میں آپ کی خریدی گئی پروڈکٹ پر موجود ای کوڈ درج کریں، گوگل آپ کی رہنمائی کردے گا کہ مطلوبہ کوڈ حلا ل ہے یا حرام۔

ایسا کرنا کیوں ضروری ہے؟: ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے کہ مستند مفتی صاحب کا یہ کہنا تھا کہ ہر بندہ انفرادی طورپر اس بات کا ذمے دار ہے کہ وہ کوئی بھی چیز کھانے یا استعمال کرنے سے پہلے تحقیق کرے کہ یہ چیز حلال ہے کہ حرام، اگرچہ یہ ایک محنت طلب کام ہے مگر ضروری ہے، کیونکہ کھانے کا صرف ایک فرض ہے تحقیق کرنا۔

یاد رکھیے! لقمہ حرام جب ہمارے پیٹ کے اند رجاتا ہے تو پھر:-
1۔ دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔
2۔ اولاد ماں باپ کی نافرمان ہوتی ہے۔
3۔ اعمال قبول نہیں ہوتے۔
4۔ دیگر بے شمار نقصانات کے علاوہ آخرت خراب ہوجاتی ہے۔

قرآن مجید میں بھی اللہ ربّ العزت نے حلال چیزوں کو کھانے کا حکم دیا ہے۔ اور ایک آخری بات حشر کے روز ہم سب سے جہاں یہ سوال ہوگا کہ مال کیسے کمایا وہاں پر یہ سوال بھی ہوگا کہ کیسے خرچ کیا اس لیے کچھ بھی کھانے یا کھلانے سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ اپنی حلال کی کمائی سے حرام کھا رہے یا اپنے بچوں کو کھلا کر اپنی اور اپنے بچوں کی دنیا اور آخرت خراب کررہے ہیں، بچوں کے بالغ ہونے تک یہ بہرحال آپ کی ذمے داری ہے کہ اس بات کو یقینی بنائیں آپ کے بچے جو چیز استعمال کریں وہ حلال ہو، اس سلسلے میں صرف ریاست کو برا بھلا کہنے سے آپ اپنی ذمے داری سے عہدہ براہ نہیں ہوسکتے، آئیے عہد کریں ہم ایک اچھے، ذمے دار شہری اور پاکستانی بن کر زندگی گزاریں گے۔ اللہ پاک ہم سب کا حامی ناصر ہو۔