ایمازون کا ہڈ حرام

495

خبر یہ ہے کہ: ایمازون کے ایک سینئر ملازم نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ وہ ڈیڑھ سال سے کمپنی میں کچھ بھی کام کیے بغیر بڑی تنخواہ اٹھا رہا ہے۔ میڈیا ذرائع کے مطابق اپنے وائرل ہونے والے اعتراف میں نامعلوم ملازم نے انکشاف کیا کہ وہ گوگل کی جانب سے ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد ای کامرس کمپنی ایمازون میں شامل ہوا۔ وہ ایمازون میں سینئر ٹیکنیکل پروگرام مینیجر کے عہدے پر فائز ہے اور اصل میں کچھ کام نہیں کرتا۔ یعنی دیکھا جائے تو اسے درحقیقت کوئی کام نہ کرنے کے 370,000 تنخواہ ملتی ہے جو کروڑوں روپے میں بنتی ہے۔ ملازم نے بتایا کہ میں نے ڈیڑھ سال پہلے ایمازون میں شمولیت اختیار کی تھی جب مجھے گوگل کی جانب سے برطرف کیا گیا۔ میں نے ایمازون میں مفت تنخواہ حاصل کرنے کے لیے بالآخر پرفارمنس امپروومنٹ پلان (PIP) میں شامل ہوگیا۔ ملازم نے بلائنڈ پر لکھا کہ انہوں نے ڈیڑھ سالہ ملازمت کے دوران صرف سات مسائل کو حل کیا اور ایک آٹومیٹک اے آئی ڈیش بورڈ تیار کیا بس۔

ہمارے لیے یہ کوئی بڑی یا حیرت کی خبر نہیں کہ اتنے بڑے ادارے میں صرف ایک آدمی ایسا ہے جو کوئی کام نہیں کرتا اور بڑی رقم تنخواہ کے طور پر وصول کرتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں اور دوست ملک کی پاور کمپنیاں بغیر بجلی بنائے اپنے مالکوں اور ہمارے مسلط آقاؤں کے لیے کھربوں روپے کما لیتی ہیں۔ ہمارے سرکاری دفاتر میں، اسکولوں میں حتیٰ کہ رویت ہلال میں بھی کوئی کچھ کام نہیں کرتا اور نہ صرف تنخواہیں بلکہ بونس، مفت مراعات، گاڑیاں، پٹرول، گیس، بجلی اور پروٹوکول بھی لیتا ہے۔ سرکاری دفاتر کے افسر اہلکار اور چوکیدار سب کچھ بغیر کام کیے لیتے ہیں۔ جو تھوڑا بہت کام کرتے ہیں اس کی رشوت وصول کرتے ہیں۔

رویت ہلال کے ارکان اور ہزاروں ملازم چاند نہیں دیکھتے۔ یہ سال کے بارہ مہینے صرف ایک دور بین سنبھالتے ہیں جس سے چیئرمین صاحب بڑی بلڈنگ سے شہر اور مغربی شفق کا نظارہ فرماتے ہوئے وڈیو بنواتے ہیں۔ چاند تو ان کو کوئی سہون شریف کا گڈریا، کوئی لورالائی کا مزدور، کوئی لیہ کا کسان یا کوئی پوپلزئی ڈھونڈ کر دیتا ہے۔ یہ لوگ رات کے گیارہ بجے قوم کو یہ بتاتے ہیں کہ ملک میں کس کس نے چاند دیکھا۔ یہ شاہزادے سال میں دو دفعہ اونچی چھتوں پر چڑھ کر ٹھنڈی ہوا کھاتے ہیں۔

ہمارے ہاں تو ایسی دو تین خواتین بھی ہیں جو سلائی مشین چلائے بغیر ارب پتی بن جاتی ہیں۔ کچھ ایسی ہیں کہ ان کی بیرون ملک تو کجا ملک میں بھی کوئی پراپرٹی نہیں ہوتی پھر بھی ارب پتی ہوتی ہیں۔ ہمارے اسکولوں کالجوں یونیورسٹیوں کے ہزارہا ٹیچرز پروفیسرز بغیر پڑھائے لاکھوں روپے ڈکار جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ پولیس، رینجرز امن وامان قائم کرنے کے سوا ’’بہت سارے کام‘‘ کرتے ہیں۔ شہر بھر میں راؤنڈ لگاتے ہیں ناکے لگا کر موٹر سائیکل والوں کے ’’پیپر‘‘ اور جیبیں نیفے چیک کرتے ہیں۔

الیکٹرونک میڈیا کا ہر ٹی وی چینل صبح سے اگلی صبح تک ایک ہی ٹاک شو کو اکتیس دفعہ نشر مکرر کرکے کروڑوں کما لیتا ہے۔ اور تو اور ہمارے ہاں ایک بندہ نیزہ پھینک کر کروڑوں روپے اور قیمتی گاڑیاں کما لیتا ہے۔ جب کہ ملک کو ایٹمی طاقت بنانے والا چند ہزار روپے پنشن سے بھی محروم رہتا ہے۔ ایک لغو کھیل کوڑا کرکٹ کے کھلاڑی ہر میچ ہار کر بھی کروڑوں روپے کما لیتے ہیں۔ مزید یہ کہ ہمارے سیکڑوں اسمبلی ارکان بغیر ووٹ لیے رکنیت حاصل کر اربوں کی مراعات کما لیتے ہیں۔

قومی اور صوبائی اسمبلی کی دوسو کے قریب خصوصی سیٹوں والی رکن خواتین چار چار سال اسمبلیوں میں چپ رہ کر مقروض قوم کو اربوں روپے کا ٹیکا لگا جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں ایک مخلوق بغیر کچھ کیے ایواڈز تمغے اور ریٹائرمنٹ کے وقت اربوں کھربوں کما لیتے ہیں۔ ہمارا وزیر اعظم محض شعبدہ بازیوں کے سہارے اربوں ڈالر قرضے کما لیتا ہے ہمارے ملک کے صدر سال میں ایک دفعہ دھوپ سینک کر فرعونی پروٹوکول اور اربوں روپے کی مراعات پی جاتے ہیں۔ حکمرانوں کے خاندان کچھ نہ کر کے اربوں روپے کی مراعات نگل جاتے ہیں۔

ہمارے روحانی پیشوا، خانقاہوں کے مجاور، گدی نشین، جوگی، صوفی، پیر، فقیر محض پھونکیں شف شف مار کر ہی کھرب پتی بن جاتے ہیں۔ معیشت کا بیڑہ غرق ہوگیا ہے اور اسٹاک ایکسچینج تاریخ کی بلندیوں پر ہے۔ خوب کمائی ہو رہی ہے۔ ہمارے ملک میں ہڈ حراموں کی بہت بڑی تعداد ہے جو کچھ نہ کر کے بھی لندن، بلجیم، فرانس، دبئی، آسٹریلیا، امریکا میں جائدادیں بنا لیتے ہیں۔ تو پھر بے چارہ ایک ایمازون ملازم کس کھاتے میں۔ ایمازون کا یہ ملازم میرے ملک کی شہریت کا مکمل اہل ہے۔