کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) دانش عقیل انصاری کو لاپتا ہوئے11 برس مکمل ہوگئے ہیں، عدالت عظمیٰ پاکستان، لاپتا کمیشن اور قانوں نافذ کرنے والے ادارے 11 برس سے لاپتا کراچی کے رہائشی نوجوان دانش عقیل انصاری کا سراغ لگانے میں کامیاب نہیں ہوسکے، دانش عقیل انصاری ولد عقیل احمد انصاری(مرحوم) کو 11 سال قبل 27 اگست 2013ء کو لاہور سے لاپتا کیا گیا تھا، دانش کی والدہ اور اہل خانہ نے وزیراعظم پاکستان، چیف جسٹس پاکستان، وفاقی وزیر قانون و داخلہ اور آرمی چیف سمیت دیگر اعلی حکام سے اس کی بازیابی کیلیے فوری اقدامات کرنے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے بیٹے کو لاپتا ہو ئے11 برس ہوگئے اور اب تک قانون نافذکرنے والے ادارے اس کا سراغ لگانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں، پاکستان میں امیر کے لیے انصاف کا پیمانہ الگ اور غریب کیلیے پیمانہ الگ ہے۔ ریاست میں بے گناہ لوگوں کو اس طرح غیر آئینی اور غیر جمہوری طریقے سے اٹھا کر غائب کرنا کہاں کا انصاف ہے؟۔ اس عمل کی نہ اسلام اجازت دیتا ہے اور نہ ہی جمہوریت ہے۔ جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے دانش کی والدہ انجم خان نے مزید کہا کہ میرا سب سے چھوٹا بیٹا دانش عقیل انصاری 27 اگست 2013ء سے لاپتا ہے، 11 برس ہو گئے ہیں اس سے کوئی رابطہ نہیں ہے، وہ کہا ں اور کس حا ل میں ہے؟۔ مجھ سمیت میرے بچے شدید ذہنی کرب و اذیت میں ہیں اور میں اپنے بیٹے اور ان کے بڑے بھائی اپنے چھوٹے بھائی کی بازیابی کی منتظر ہیں۔ لاپتا دانش عقیل انصاری کی والدہ نے چیف جسٹس عدالت عظمیٰ پاکستان، وزیراعظم پا کستان، چیف آف آرمی اسٹاف، وفاقی وزیر قانون، وفاقی وزیر داخلہ اور لاپتا کمیشن سمیت دیگر متعلقہ اداروں سے مطالبہ کیا کہ دانش کی بازیابی کیلیے ہر سطح پر فی الفور اور عملی اقدامات بروئے کار لائے جائیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ بھی میرے بیٹے کی بازیابی کیلیے اپنا کردار ادا کریں۔ دانش عقیل انصار ی کی والدہ نے خصو صاً خواتین سے اپیل کی ہے کہ وہ ایک ماں کے دکھ کو سمجھتے ہوئے اپنی دعاؤں میں دانش کو یاد رکھیں۔ بعدازاں حق دو تحریک بلوچستان کے سربراہ، بلوچستان اسمبلی کے رکن اور جماعت اسلامی بلوچستان کے رہنما مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے لاپتا دانش عقیل انصاری کے حوالے سے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے نوجوان دانش عقیل انصاری کی11 برس سے گمشدگی حکمرانوں کیلیے لمحہ فکر ہے، ہمارے ملک میں نوجوانوں کو لاپتا کرنا معمول بن گیا ہے۔ ایک مہذب معاشرے میں نہ اسلام نہ دین اور نہ ہی پاکستان کا آئین اور قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ بغیر کسی جرم کی نشاندہی کرے کسی کو بھی لاپتا کردیا جائے یہ بدترین ظلم ہے۔ مولانا ہدایت الرحمن بلوچ نے کہا کہ دانش عقیل انصاری کس حال میں ہے اور کہاں ہے 11 برس سے اس کی بوڑھی والدہ اور اہلخانہ سب ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ دانش کب گھر آئے گا؟۔ انہوں نے کہا کہ یہ ظلم کی انتہا ہے کہ11برس ہو گئے ہیں اور اس کا کوئی پتا ہمارے کسی ادارے کے پاس موجود نہیں ہے کہ وہ زندہ ہے یا مار دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیا کسی ماں کے لخت جگر کو اس طرح سے لاپتا کرنے کے دکھ کو پاکستان کا کوئی ادارہ برداشت کرسکتا ہے۔ جنہوں نے دانش کو لاپتا کیا ہے کیا ان کی اپنی ماں نہیں ہے؟ کیا ان کو اس درد کا احساس نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ریاست کو چلانے والوں کی اپنی مائیں نہیں ہیں۔ دانش کی والدہ نے چیف جسٹس، سیاسی و مذہبی جماعتوں سمیت دیگر متعلقہ اداروں کو مکتوب لکھے ہیں لیکن ہماری عدالتیں اشرافیہ سے، سیاست دانوں سے فارغ ہوں تو کسی غریب کے بچوں کی بازیابی کی فکر کریں گی۔ دانش کی والدہ نے اپنے بیٹے کی بازیابی کیلیے پاکستان کے ہر دروازے پر دستک دی کہ کسی طرح ان کا بیٹا آجائے۔ مولانا ہدایت الرحمن نے کہا کہ خدارا ایک ماں کے درد کو سمجھیں اگر مظلوم ماں کی بد دعا لگ جائے تو عرش بھی ہل جاتا ہے لیکن ہمارے اداروں، عدلیہ اور پارلیمنٹ میں بیٹھنے والوں کا دل پتھر کا ہوگیا ہے وہ موم نہیں ہوتا۔ مجھے یقین ہے کہ دانش کی والدہ کی فریاد اللہ کے عرش تک پہنچ رہی ہوگی۔ میں مطالبہ کرتا ہوں کے کراچی کے نوجوان دانش عقیل انصاری کو فوری طور پر بازیاب کیا جائے۔ اگر کوئی جرم کیا ہے تو اس کے دفاع کا حق تو دیا جائے اس کے لواحقین کی فریاد کو سنا جائے۔ اس نے اگر کوئی جرم کیا ہے تو اس کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور جرم ثابت ہو جائے تو اسے پھانسی دے دی جائے لیکن اس کو کسی عدالت میں کسی تھانے کسی ادارے کے سامنے پیش تو کیا جائے۔ دانش کے لواحقین کو سنا جائے ان کا پیارا کہاں ہے اسے کیوں اورکس جرم میں لاپتا کیا گیا ہے تاکہ دانش کے خاندان والوں کو پتا چل جائے کے دانش کو کس جرم کی سزا دی جارہی ہے۔