دوسرا حصہ
محمد علی بوگرہ جو کچھ دن کے لیے ملک کے وزیر اعظم بنے تھے ایوب خان نے انہیں اپنا وزیر خارجہ بنایا 1963 ان کا انتقال ہوگیا اب یہ ایوب خان کی ساتویں غلطی تھی یا خوبی کہ انہوں نے ان کی جگہ ایک بالکل نئے فرد جن کا کوئی سیاسی بیک گرائونڈ نہیں تھا انہیں یعنی ذوالفقار علی بھٹو کو وزیر خارجہ بنالیا۔ بعد میں ایوبی گلدستے میں کھلنے والا یہ پھول اتنا قریب ہو گیا کہ وہ ایوب خان کو ڈیڈی کہہ کر مخاطب کرنے لگے تھے۔ ویسے یہ الگ بات ہے کئی موقعوں پر انہوں نے ایوب خان کو غلط اطلاعات فراہم کیں۔ بالخصوص جب کشمیر میں آپریشن جبرالٹر شروع ہوا تو بھٹو نے ایوب خان سے کہا ہمیں بڑی طاقتوں نے یقین دلایا ہے کہ بھارت بین الاقوامی سرحد عبور نہیں کرے گا لیکن اس کے باوجود بھارت نے پانچ اور چھے ستمبر کی رات کو خاموشی سے پاکستان پر حملہ کردیا۔ بھٹو ویسے انتہائی ذہین آدمی تھے ساٹھ کی دہائی کے شروع برسوں میں یہ خبر ملی کہ امریکا نے بھارت کو کچھ ہتھیار دیے ہیں۔ بھٹو صاحب امریکا پہنچ گئے اس وقت آئزن ہاور امریکا کے صدر تھے بھٹو نے بہت عمدگی سے اپنی بات رکھی اس میٹنگ میں آئزن ہاور کے ایک سیکرٹری بھی موجود تھے جنہوں نے بعد میں ایک کتاب لکھی اور اس میں یہ واقعہ لکھا کہ آئزن ہاور بھٹو کی گفتگو سے اتنا متاثر ہوئے کہ بھٹو سے کہا کہ اگر آپ امریکی ہوتے تو میری کابینہ کے رکن ہوتے، بھٹو ذہین فرد تو تھے انہوں نے فوراً جواب دیا کہ اگر میں امریکی ہوتا تو آپ کی جگہ ہوتا۔
ایوب خان کی آٹھویں بڑی غلطی 1964 میں بی ڈی نظام کے تحت ملک میں انتخابات کرانا تھا۔ پہلے اسی ہزار بی ڈی ارکان منتخب ہوئے اس وقت ایوب خان کے خلاف ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے اتحاد سی او پی، بنایا (Combined Apposition Parties) اس اتحاد میں ملک کی تمام بڑی جماعتیں شامل تھیں۔ ان جماعتوں نے ایوب خان کے مقابلے پر پہلے تو دو شخصیتوں کو سامنے لانے کا ارادہ ظاہر کیا ایک خواجہ ناظم الدین اور دوسرے جنرل اعظم خان۔ خواجہ ناظم الدین تحریک پاکستان کی ایک نمائندہ شخصیت تھے ایوب خان بھی چاہتے تھے کہ یہی ان کے مقابلے پر آجائیں وہ سمجھتے تھے کہ یہ ایک کمزور سے آدمی ہیں وہ انہیں آسانی سے ہرا دیں گے۔ پھر اپوزیشن اتحاد نے جنرل اعظم خان کے حق میں فیصلہ کرلیا۔ اکتوبر 1958 کے انقلاب کے بعد جنرل ایوب خان نے جنرل اعظم خان کو مشرقی پاکستان کا گورنر بنایا انہوں نے مشرقی پاکستان میں ایسے ترقیاتی کام کیے اور مشرقی پاکستان کے عوام سے اس طرح محبت کے رشتے استوار کیے کہ عام بنگالی انہیں اعظم بھائی کہتا تھا بعد میں پھر ان کو ہٹا کر عبدالمنعم خان کو گورنر بنایا گیا اپوزیشن اتحاد کے ایک اجلاس میں مولانا بھاشانی نے جنرل اعظم خان پر کوئی اعتراض اٹھا دیا اس طرح ان کا نام بھی ڈراپ ہو گیا۔ پھر اسی اجلاس میں یا بعد کے کسی اجلاس میں محترمہ فاطمہ جناح کا نام فائنل ہوا شروع میں محترمہ اس الیکشن کے لیے تیار نہیں تھیں لیکن بعد میں تیار ہو گئیں، دلچسپ بات یہ کہ ایوب خان کے اکتوبر 58 کے انقلاب کے بعد محترمہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کے حق میں بیان دیا تھا۔
محترمہ فاطمہ جناح کو پورے ملک میں زبردست عوامی حمایت مل رہی تھی شیخ مجیب الرحمن مشرقی پاکستان میں فاطمہ جناح کے الیکشن انچارج تھے کہتے ہیں کہ بڑی زبردست دھاندلی سے ایوب خان نے یہ الیکشن جیت لیا بس اسی دن سے مشرقی پاکستان ذہنی طور پر الگ ہوگیا۔ یہ ایوب خان کی یہ نویں لیکن سب سے بڑی غلطی تھی آپ اس کو کوئی بھی نمبر دے دیں اس الیکشن کا نتیجہ مشرقی پاکستان کی ذہنی و قلبی طور سے پاکستان سے علٰیحدگی تھی عین وقت پر مولانا بھاشانی نے دھوکا دیا اور فاطمہ جناح کی حمایت ترک کرکے ایوب خان کی حمایت کا اعلان کردیا اس طرح مشرقی پاکستان میں نتائج تبدیل ہو گئے بعد میں مولانا بھاشانی نے کہا کہ انہوں نے چین کے سربراہ کے کہنے پر فاطمہ جناح کو چھوڑ کر صدر ایوب خان کی حمایت کا فیصلہ کیا یہ بات معروف صحافی حامد میر نے اپنے ایک کالم میں لکھی تھی۔ بعض اہم چیزیں درج ہونے سے رہ جاتی ہیں ایوب خان کی ایک بہت بڑی غلطی ہندوستان سے دریائوں کے حوالے سے معاہدے ہیں جو اتنے نقائص سے بھرپور ہیں کہ ہم ان کا خمیازہ تادیر بھگتتے رہیں گے۔
1965 میں جنگ ہوئی 17 دن کی یہ جنگ ہم تینوں شعبوں (بری بحری اور فضائی) میں جیت چکے تھے۔ فضائیہ میں ہماری کارکردگی کو پوری دنیا میں سراہا گیا۔ اس جنگ کے بعد ایوب خان کچھ عرصے کے لیے قوم کے ہیرو بن چکے تھے، دوران جنگ تمام سیاسی جماعتوں نے ایوب خان کا ساتھ دیا۔ فروری 1966 میں روس کی سربراہی میں تاشقند میں مذاکرات ہوئے پوری قوم کو انتظار تھا کہ اس مذاکرات میں کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا یا حل کے قریب پہنچنے کے لیے کوئی روڈ میپ بن جائے گا۔ کئی دن کی تگ و دو کے بعد جو معاہدہ ہوا اس نے پوری پاکستانی قوم کو مایوس کردیا۔ ہوا یہ کہ بھٹو سمیت پاکستانی وفد کی کوشش تھی کہ اس سنہری موقع پر کشمیر پر کوئی بات ہوجائے لیکن بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری اس پر تیار نہ تھے۔ آف دی ریکارڈ یہ بات میں نے کہیں پڑھی تھی کہ اس ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کے لیے روسی صدر خروشیف نے ایوب خان سے کہا کہ آپ ایک مضبوط حکمران ہیں جنگ جیت کر قوم کے ہیرو بھی ہوگئے آپ اگرکوئی معاہدہ کرلیں گے تو آپ کی قوم اتنا نہیں پوچھے گی بھارتی جمہوریت میں جواب دینا پڑے گا۔ پھر پتا نہیں کیا ہوا ایک صبح معاہدے پر دستخط ہو گئے اور اس طرح یہ جنرل ایوب خان کی دسویں اور سب سے بڑی غلطی تھی کہ وہ میدان میں جیتی ہوئی جنگ مذاکرات کی میز پر ہار گئے۔ ایک دفعہ امریکا نے دھوکا دیا کہ کشمیر کا مسئلہ یو این کی قراردادوں کی روشنی میں طے ہوجائے گا اور دوسری دفعہ تاشقند مذاکرات میں روس نے یہی بات صدر ایوب سے کی اور وہ بھولے بادشاہ مان گئے۔ تاشقند سے واپسی پر بھٹو نے احتجاجاً استعفا دے دیا ملک میں ایوب خان کے خلاف زبردست تحریک چلی اور اکتوبر 1958 میں صدر کا عہدہ سنبھالنے والے ایوب خان نے 25 مارچ 1969 کو ٹی وی پر اختتامی تقریر کرکے پوری قوم کے سامنے روتے ہوئے استعفا دے دیا۔
اب اگر ہم ایوب دور کی قابل ذکر خوبیوں اور کامیابیوں کا تذکرہ کریں گے تو اس میں بھی کئی اہم نکات سامنے آتے ہیں۔ پہلی اہم کامیابی تو یہی تھی کہ قائد اعظم کی وفات اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اقتدار کے ایوانوں جو اٹھا پٹخ اور محلاتی سازشیں ہورہی تھیں گو کہ اس میں ایوب خان کا اپنا کردار بھی نمایاں تھا لیکن اس انقلاب کے بعد قوم کو کچھ سکون کا سانس لینے کا موقع مل گیا ویسے تو مارشل لا اس ہپڑ دپڑ اور آپا دھاپی کا بہتر نعم البدل ثابت نہیں ہوا لیکن مارشل لا کے تحت کچھ ایسے اقدامات اٹھائے گئے جن سے عوام کچھ مطمئن اور کچھ خوش ہوئے چائے کے ہوٹلوں پر جالیاں لگ گئیں، ملاوٹ والے دودھ سڑکوں پر پھینکے جانے لگے، دکانوں پر ترازو چیک کیے جانے لگے۔ ایوب خان کے دور کی دوسری بڑی کامیابی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں استحکام تھا مجھے یاد ہے کہ بچپن میں پونے سات آنے سیر آٹا تھا اور یہ قیمت برسوں برقرار رہی ایک آٹا ہی نہیں تما م اشیاء کی قیمتیں برسوں مستحکم یعنی عوام کی قوت خرید کے مطابق تھیں یہی وجہ ہے کہ ایوب خان کے خلاف جو تحریک چلی وہ ان کی آمریت اور جبر کے خلاف تھی شکر کی قیمت میں معمولی اضافہ تو ایک بہانہ بن گیا ورنہ تو ان کے خلاف تحریک کے اسباب کچھ اور تھے جس میں اہم سبب معاہدہ تاشقند تھا۔ ایوب خان کے دور کی تیسری سب سے بڑی اور اہم کامیابی ملک میں تیز رفتار اقتصادی ترقی تھی جس نے ملک کے معاشی حالات کو بہت بہتر بنادیا ۔
یہ بات سچ ہے کہ ایوب خان کے دور میں ملک میں جتنی ترقی ہوئی اتنی کسی اور دور میں نہیں ہوئی۔ اس زمانے میں، میں لیاقت آباد سے 28 نمبر بس پر پاک کالونی اپنی دادی کے یہاں جایا کرتا تھا یہ بس مل ایریا سے ہوتی ہوئی جاتی تھی اس وقت سائٹ ایریا میں چوبیس گھنٹے چہل پہل رہتی تھی فیکٹریوں سے مشینوں کے چلنے کی آوازیں گونجتی تھیں چمنیوں سے دھواں نکلتا نظر آتا تھا۔ صبح سات سے تین، دوپہر تین سے رات گیارہ اور رات گیارہ بجے سے صبح سات بجے تک کی تینوں شفٹیں بھرپور چلتی تھیں۔ یہ معاشی منصوبہ بندی اس زمانے میں ڈاکٹر محبوب الحق نے کی تھی۔ ایوب خان کی چوتھی بڑی کامیابی امن و امان کا قیام تھا۔ 1968 میں جب ایوب کے خلاف تحریک عروج پر تھی اس زمانے میں ہنگامے اور کرفیو کا نفاذ ہوجاتا اسی سال 14 فروری کو اتنی کامیاب ہڑتال ہوئی کہ ایسی ہڑتال نہ پہلے کبھی ہوئی اور نہ آئندہ کبھی ہو سکتی ہے۔ 1964 میں انتخاب میں کامیابی پر ایوب خان کے بیٹے گوہر ایوب نے ناظم آباد اور لیاقت آباد سے ایک متنازع جلوس نکالا جس میں تصادم ہوگیا اور پھر شہر کراچی میں پہلی بار پٹھان مہاجر فسادات ہوئے لیکن جلد ہی اس پر قابو پالیا گیا۔ ان دو واقعات کے علاوہ پورا دور حکومت امن امان کا مظہر تھا۔ ایوب خان کی پانچویں بڑی کامیابی ملک کی اقتصادی ترقی دنیا کے لیے ایک مثال بن گئی تھی امریکا اور یورپی ممالک کی جامعات سے طلبہ کے وفود نوزائیدہ مملکت پاکستان کی تیزی سے ابھرتی ہوئی معاشی ترقی کا مطالعہ کرنے آتے تھے۔ ایوب خان کی چھٹی بڑی کامیابی ان کی گڈ گورنس تھی ملک امیر محمد خان مغربی پاکستان کے گورنر تھے اصولوں او ر ڈسپلن کی سخت پابندی کرتے تھے ان کے بیٹے تک کو گورنر ہائوس میں آنے کی اجازت نہیں تھی اس زمانے میں سرکاری دفاتر میں عام لوگوں کے کام ہوجایا کرتے تھے رشوت کا چلن عام نہیں ہوا تھا۔ ان کی ساتویں خوبی اسلامی اور پختون روایات کا اہتمام تھا کبھی کسی نے بیگم ایوب کو کہیں کسی دورے میں یا کسی مہمان کے استقبال کے لیے نہیں دیکھا۔ نسیم نام کی کوئی بھتیجی کبھی کبھی پروٹوکول کی ادائیگی کے لیے منظر پر آجاتی تھیں۔ ایوب خان کی آٹھویں کامیابی بہترین خارجہ پالیسی تھی۔ چین سے خصوصی دوستی تو تھی ہی، پاکستان، ایران اور ترکی پر مشتمل RCD ان ہی کے دور میں فعال تھی اس کا نام ریجنل کوآپریشن ڈویلپمنٹ تھا، ملائیشیا اور انڈونیشیا سے بھی خصوصی تعلقات تھے اور بہ حیثیت مجموعی تمام مسلم ممالک سے اچھے تعلقات تھے۔ نویں بڑی کامیابی منگلا اور تربیلا ڈیم کا قیام تھا جن کا شمار دنیا کے بڑے ڈیموں میں ہوتا ہے ان ڈیموں کا مطالعاتی معائنہ کرنے کے لیے باہر کے ممالک کے طلبہ وفود کی شکل میں آتے تھے۔ امریکا کی ایک بہت بڑی کمپنی نے یہ ڈیم بنائے تھے اس کے بعد اسی کمپنی کو کالا باغ ڈیم بنانا تھا لیکن کسی طرف سے یہ تجویز آئی کہ اب دو ڈیم بنانے کے بعد ہمارے انجینئرز اتنے تجربہ کار ہو گئے ہیں وہ یہ کالا باغ ڈیم بناسکتے ہیں پھر یہ ڈیم سیاست کی نذر ہوگیا اگر منگلا اور تربیلا کے بعد کالا باغ ڈیم بھی بن جاتا تو آج پاکستان توانائی کے بحران کا شکار نہ ہوتا۔ ایوب خان کی دسویں بڑی کامیابی 1965 کی جنگ میں بھارت کو شکست دینا تھی قوم کی ساری شکایات ایوب خان کے خلاف ختم ہو گئی تھیں لیکن ایوب خان اس کامیابی کو سنبھال کر نہ رکھ سکے۔