چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ عوام کو سوشل میڈیا سے پیدا شدہ ہیجان اور فتنے کے مضمرات سے دور رکھنا ریاست کی ذمے داری ہے۔ اسلام آباد میں یوتھ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نوجوان پاکستان کا مستقبل ہیں، آپ کی آنکھوں کی چمک دیکھ کر یہ یقین ہوجاتا ہے کہ پاکستان کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے، آزاد ریاست کی اہمیت جاننی ہے تو لیبیا، شام، کشمیر اور غزہ کے عوام سے پوچھو۔ آرمی چیف نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ علم انسان کو دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔ جنرل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ عوام، حکومت اور فوج کے درمیان مضبوط رشتہ ہی پاکستان کے تحفظ اور ترقی کا ضامن ہے، جو پاکستان کے ڈیفالٹ کا بیانیہ بنا رہے تھے، وہ آج کہاں ہیں؟۔ انہوں نے کہا کہ بحیثیت مسلمان ہمیں ناامیدی سے منع کیا گیا ہے، زندگی امتحان کا نام ہے اور قرآن کی آیت پڑھیں کہ ’’کیا لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ صرف یہ کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہ ہوگی‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا سب سے بڑا اور قیمتی سرمایہ ہمارے نوجوان ہیں، ہم کسی صورت انہیں ضائع نہیں ہونے دیں گے اور اپنے خطاب کے اختتام پر آرمی چیف نے نوجوان کو علامہ اقبال کا شعر سنایا:۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
(روزنامہ جسارت 27 اگست 2024)
جنرل عاصم منیر عوام کے سلسلے میں ریاست کی ذمے داری پر بڑے جوش اور ولولے سے بولے ہیں۔ لیکن ان کی تقریر میں جوش ہی جوش ہے۔ ان کی تقریر میں ہوش کا دور دور تک نام و نشان نہیں پایا جاتا۔ جنرل عاصم منیر کو سوشل میڈیا کا پیدا کردہ ہیجان اور فتنہ صرف اس لیے یاد آیا ہے کہ تحریک انصاف اور عمران خان کے لاکھوں پرستار سوشل میڈیا پر جنرل عاصم منیر اور فوج کے سیاسی غلبے کے خلاف رواں ہیں اور ریاستی اداروں کو سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس صورت حال کا مقابلہ کس طرح کریں؟ عمران خان اور پی ٹی آئی کے پرستار اگر جنرل عاصم منیر اور فوج کے سیاسی غلبے کے خلاف صف آرا نہ ہوتے تو جنرل عاصم منیر کو سوشل میڈیا کے فتنے کی خبر بھی نہ ہوتی۔ کیا یہ ایک حقیقت نہیں ہے کہ انٹرنیٹ پر عریانی و فحاشی کا دریا بہہ رہا ہے اور اسلام عریانی اور فحاشی کے سخت خلاف ہے مگر جنرل عاصم منیر اور دوسرے جرنیلوں کو آج تک اس سلسلے میں ’’ریاست کی ذمے داری‘‘ یاد نہیں آئی۔ جدید ذرائع ابلاغ نے مسلم معاشروں کے ہیروز بدل دیے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے معاشرے کے ہیروز علما، صوفیا، عالم، دانش ور، شاعر، ادیب، اساتذہ اور ماں باپ ہوتے تھے مگر اب ہماری نوجوان نسل کے ہیروز ٹیلی ویژن اور فلم کے اداکار اور گلوکار ہیں، کھلاڑی ہیں، ماڈل گرلز ہیں، رقاص اور طوائفیں ہیں مگر جنرل عاصم منیر نے آج تک اس سلسلے میں کسی ریاستی ذمے داری کا ذکر نہیں کیا۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ پاکستان ایک نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا مگر پاکستان کے حکمرانوں باالخصوص جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے کبھی پاکستان کے نظریے کے سلسلے میں ریاستی ذمے داری پوری کرنے کی کوشش نہیں کی۔ جنرل ایوب ملک کے پہلے فوجی حکمران تھے اور وہ ملک کے اساسی نظریے کے پابند تھے مگر انہوں نے ملک کے نظریے کی پاسداری کرنے کے بجائے اس سے غداری کی۔ انہوں نے کھلے عام سیکولر ازم کو معاشرے پر مسلط کرنے کی سازش کی۔ انہوں نے اپنے پالتو دانش وروں سے سود کو حلال قرار دلوایا۔ انہوں نے ملک پر ایسے عائلی قوانین مسلط کیے جو اسلام کی ضد تھے۔ جنرل یحییٰ اپنی ذاتی زندگی میں شراب اور شباب کے رسیا تھے۔ جب پاکستان ٹوٹ رہا تھا تو وہ طوائفوں اور طوائفوں جیسی عورتوں کے ساتھ وقت بسر کررہے تھے ۔ جنرل پرویز مشرف نے ملک کو لبرل بنانے کی کوشش کی۔ وہ کتوں کو گود میں لے کر مغرب کو بتایا کرتے تھے کہ وہ ان کی طرح ’’لبرل‘‘ اور ’’کتا پرست‘‘ ہیں۔ انہوں نے سود کے خلاف ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا فیصلہ ماننے سے صاف انکار کردیا۔ انہوں نے معاشرے میں بسنت جیسے غیر اسلامی تہوار کو عام کرنے کی سازش کی اور ’’بسنتی‘‘ کہلائے۔ جنرل ضیا الحق ذاتی زندگی میں مذہبی انسان تھے مگر انہوں نے بھی ملک میں ملک کے نظریے کو نافذ کرنے کے لیے کچھ نہ کیا۔ انہوں نے ملک میں ایسی اسلامی بینکاری متعارف کرائی جو صرف نام کی ’’اسلامی‘‘ تھی۔ انہوں نے ملک میں نظام صلوٰۃ کو اس طرح نافذ کیا کہ وہ مذاق بن گیا۔ جنرل عاصم منیر خیر سے ’’سید‘‘ بھی ہیں اور ’’حافظ قرآن‘‘ بھی۔ وہ خود بتائیں کہ اس کے باوجود انہوں نے اب تک معاشرے اور ریاست پر اسلام کو غالب کرنے کے لیے کیا کیا؟ کیا انہوں نے سود کو ریاست سے دیس نکالا دے دیا ہے؟ کیا انہوں نے سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ سے عریانی و فحاشی ختم کرادی ہے؟ کیا انہوں نے قرآن کے نظام حدود کو ریاست کا قانون بنادیا ہے؟ جیسا کہ ظاہر ہے کہ ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ جنرل عاصم منیر کو ریاست کی کوئی ذمے داری یاد آئی ہے تو سوشل میڈیا کے فتنے کے حوالے سے اور وہ بھی اس لیے کہ ان کی ذات اور ان کا ادارہ سیاسی حریفوں کی تنقید کی زد میں ہے۔ اسی سوشل میڈیا پر کل سے جنرل عاصم منیر کی جے جے کار ہونے لگی تو جنرل صاحب کے لیے سوشل میڈیا فتنہ نہیں رہے گا بلکہ ایک رحمت بن جائے گا؟۔
تاریخ بتاتی ہے کہ قائداعظم نے وقت کی واحد سپر پاور برطانیہ اور ہندو اکثریت سے لڑ کر پاکستان حاصل کیا۔ اس طرح بڑی طاقتوں کی مزاحمت پاکستان اور پاکستانی قوم کے خون میں تھی مگر جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے اس سلسلے میں بھی کبھی کوئی ریاستی ذمے داری محسوس نہیں کی۔ اس کے برعکس انہوں نے پاکستان کو امریکا کی باج گزار ریاست بنا کر رکھ دیا۔ جنرل ایوب نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا مگر وہ 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ خفیہ رابطہ استوار کیے ہوئے تھے اور وہ امریکیوں کو بتا رہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان سخت نااہل ہیں اور وہ ملک کو تباہ کردیں گے اور فوج انہیں ہرگز ایسا نہیں کرنے دے گی۔ جنرل ایوب امریکا پرستی میں اتنے آگے بڑھے کہ انہوں نے پاکستان کے گلے میں سیٹو اور سینٹو کے معاہدوں کا طوق ڈال دیا۔ انہوں نے امریکا کو بڈھ بیر میں خفیہ ہوائی اڈا فراہم کردیا جہاں سے وہ سوویت یونین کی جاسوسی کیا کرتا تھا۔ جنرل پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد ایک ٹیلی فون کال پر پورا پاکستان امریکا کے حوالے کردیا۔ جنرل پرویز مشرف امریکی صدر جارج بش کی اس حد تک پوجا کرتے تھے کہ مغربی ذرائع ابلاغ نے انہیں ’’مشرف‘‘ کے بجائے ’’بشرف‘‘ کہنا شروع کردیا تھا۔ جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف بنے عرصہ ہوگیا ہے۔ وہ خود بتائیں کہ انہوں نے اب تک پاکستان کو امریکا کے چنگل سے آزاد کرانے کے سلسلے میں کیا کیا ہے؟ انہوں نے اس سلسلے میں اب تک کتنی ’’ریاستی ذمے داری‘‘ محسوس کی ہے؟
پاکستان ایک عوامی اور جمہوری تحریک کا حامل تھا اور اس کی تخلیق میں جرنیلوں اور کسی فوج کا کوئی کردار نہیں تھا۔ چنانچہ پاکستانی جرنیلوں کا فرض تھا کہ وہ خود کو اقتدار سے دور رکھتے اور اس سلسلے میں ریاستی ذمے داری کو شدت سے محسوس کرتے۔ لیکن اس کے برعکس جرنیلوں نے عملاً پورے ملک اور ملک کے پورے سیاسی بندوبست پر قبضہ کرلیا ہے انہوں نے اس سلسلے میں تحریک پاکستان اور قائداعظم کے ورثے پر تھوک دیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ملک کا آئین ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ جمہوریت ایک دھوکا بن کر رہ گئی ہے، انتخابات دن دہاڑے چوری کرلیے جاتے ہیں۔ عدالتوں سے من مانے فیصلے حاصل کرلیے جاتے ہیں اور عدالتیں من مانے فیصلے نہ کریں تو ان کے پَر کتر دیے جاتے ہیں۔ جنرل عاصم منیر خیر سے سیّد بھی ہیں اور حافظ قرآن بھی ہیں۔ وہ خود بتائیں کہ 2024ء کے انتخابات قرآن کی کسی آیت کی رو سے چوری کیے گئے؟ اس سلسلے میں کس حدیث مبارکہ اور فقہ کی روایت سے روشنی حاصل کی گئی۔
جنرل عاصم منیر نے بالکل درست کہا ہے کہ ہمارا دین ہمیں مایوس ہونے سے روکتا ہے لیکن بدقسمتی سے ریاست کے ہر ادارے اور ریاست کی ہر چیز پر جرنیلوں نے اس طرح قبضہ کرلیا ہے کہ پاکستانیوں کے دلوں میں امید کا کوئی چراغ روشن نہیں رہا۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ قوموں کو آزماتا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے جرنیل اور ان کے پیدا کردہ سیاست دان خود قوم کی آزمائش بنے ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ 1958ء سے چل رہا ہے۔ آخر جرنیل کتنی دہائیوں تک قوم کو آزمائیں گے؟ جنرل عاصم کو پاکستان کے نوجوانوں کی آنکھوں میں چمک نظر آتی ہے لیکن پاکستان کے جرنیلوں نے قوم کا یہ حال کردیا ہے کہ اگر امریکا اور یورپی ممالک ویزا عام کردیں تو پاکستان کے سارے نوجوان امریکا اور یورپ ہجرت کرجائیں گے۔ جنرل صاحب نے اقبال کا شعر بھی سنایا ہے۔ شعر یہ ہے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
جب تک قائداعظم اور لیاقت علی خان ہمارے درمیان موجود تھے ہر فرد واقعتاً ملت کے مقدر کا ستارہ تھا مگر جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ بھٹوئوں، نواز شریفوں، الطاف حسینوں اور عمران خانوں نے ملک کا وہ حال کردیا ہے کہ اقبال کا شعر بدل کر یہ ہوگیا ہے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقتدر کا خسارہ