پولیس پر ڈاکوئوں کی دھاک

295

کچے کے ڈاکوئوں نے ایک ہی حملے میں ایک درجن پولیس اہلکاروں کو ہلاک کرکے محکمہ پولیس پر دھاک بٹھادی۔ حکومت کو حواس باختہ کردیا۔ ماہ رواں میں یہ حملے کا تیسرا واقعہ ہے۔ یہ تازہ واقعہ سب سے بڑا جانی نقصان و ساکھ کا ہے۔ پولیس کے اہلکاروں کی دو گاڑیاں واپس لوٹ رہی تھیں کہ کیچڑ میں پھنس گئیں اور ڈاکو جو موقعے کی تاک میں چھپے بیٹھے تھے انہوں نے راکٹ مارا اور پھر شدید فائرنگ کرکے پولیس کے جوانوں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ دیا اور یوں یہ سانحہ وقوع پزیر ہوگیا۔ ویسے بھی بتانے والے بتاتے ہیں کہ ڈاکوئوں کے پاس جدید ہتھیاروں کے علاوہ مارٹر گولے، 12-7 اور 12-4 کی گنز ہیں اور پولیس کے پاس جی تھری اور ایس ایم جی بندوقیں ہیں۔ کچے کا یہ علاقہ تینوں صوبوں کے بارڈرز پر واقع ہے اور اس کی سرحدیں پاکستان کے ازلی دشمن بھارت سے بھی ملتی ہیں۔ یوں ہتھیار اور علاقائی پوزیشن سے ڈاکوئوں کا پلہ بھاری ہے۔

ڈاکوئوں کی انسانی اغوا کی وارداتیں ایم آر ڈی کی تحریک 83ء سے شروع ہوئی، اب اس کو 40 سال گزر گئے ہیں، یہ خوب منافع بخش کاروبار بن چکی ہیں۔ ایک کتاب ’’ڈاکوئوں کی دہائی‘‘ کے مصنف کی ریزہ کشی کے مطابق 1984ء سے 1994ء تک کے عشرے میں ڈاکوئوں نے 11436 افراد کو تاوان کے لیے اغوا کیا۔ 1337 افراد کو قتل کیا اور دو ارب روپے تاوان وصول کیا۔ سندھ پولیس کی ماہ مارچ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ کندھ کوٹ اور کشمور کے کچے کے ڈاکوئوں نے ایک سال میں 400 افراد اغوا کیے۔ یہ ڈاکو جو کمائو پوت ہیں ان کے سر پر سیاسی زمینداروں کا سایہ ہے جو کڑی دھوپ میں اُن کو بچائے ہوئے ہیں۔ یہ بڑے شوق سے کچے میں آئیں جائیں نہ ان کا مال جائے نہ جان جائے۔ اپریل 2024ء میں سندھ کے سابق وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ جب تک کچے کے زمینداروں کے خلاف کارروائی نہیں کی جائے گی ڈاکوئوں کا خاتمہ نہ ہوگا۔ کچے کے ڈاکوئوں کا کھونٹا پکے کے ڈاکوئوں سے جڑا ہوا ہے۔

شمالی سندھ کا یہ علاقہ ڈاکوئوں کی راج دھانی اور نوگوایریا بنا ہوا ہے۔ وہ شوق سے جب چاہیں آئیں، لوٹیں، اغوا کریں اور بے خوف و خطر اپنے ٹھکانوں کو لوٹ جائیں کون ہے جو ان کی راہ کھوٹی کرے۔ اب تو ڈاکو سیاست دانوں کی طرح میڈیا کا بھی خوب استعمال کرنا سیکھ گئے ہیں، وہ شادی یا سستی گاڑی کا جھانسا دیتے ہیں اور یوں شکار ان کے پنجرے میں ازخود آجاتا ہے اور پھر وہ جان کی اماں کا طلب گار اور تاوان کے لیے عزیزوں اور دوستوں کے آگے جھولی پھیلانے کی ویڈیو کا کردار بنتا ہے اور ڈاکو مڈل مین کے ذریعے رقم وصول کرتے ہیں اور نہ ملنے کی صورت میں مار کر لاش جنگل میں پھینک دیتے ہیں۔ ڈاکوئوں کی یہ شورش معاشی بھی ہے، سیاسی بھی ہے اور انہیں ملک دشمن عناصر کے ساتھ ان تمام بیرون ملک قوتوں کی بھی سپورٹ حاصل ہے جو پاکستان اور سندھ کو چین سے دیکھنا نہیں چاہتے۔ سیاست کو بالاطاق رکھ کر اگر ڈاکوئوں کے خاتمے کا فیصلہ کرکے ان کے ٹھکانوں کو تباہ، ان کے سرپرستوں کی گردن ناپ لی جائے تو سندھ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ مگر یہ کرے کون؟ ڈاکوئوں کی سرکوبی کوئی مشکل کام نہیں، سیاسی ضرورت اور مصلحت ہی شاید آڑے آ رہی ہے۔ یہ چند سو ڈاکو حکومت کی رٹ کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں یا بنائے ہوئے ہیں اور ان کا بھی حکومت سازی میں کوئی کردار تو نہیں؟ ان کو جدید ہتھیار کہاں سے ملتے ہیں کون پہنچاتا ہے، یہ اسمگلر جو ہتھیار لا کر دیتے ہیں۔ سلیمانی ٹوپی پہنے تو نہیں ہوتے کہ نظر نہیں آتے یا انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ یہ سب سوال اب گردش میں ہیں۔