بلوچستان کا رستا ہوا زخم

338

بلوچ راہنما نواب اکبر بگٹی کی اٹھارہویں برسی پر بلوچستان خون میں نہا گیا۔ دہشت گردی کا ایک ایسا طوفان اْمڈ پڑا کہ جس کی منصوبہ بندی مہینوں پہلے ہوئی ہوگی جس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا کہ بلوچستان کی عسکریت مختلف گروپوں میں تقسیم ہونے کے باوجود مقاصد اور حکمت عملی کے ایک نیٹ ورک کے ساتھ جڑی ہے اور وہ منصوبہ بندی کرنے اور اس پر عمل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ چند ہی ہفتے قبل تربت میں ماہ رنگ بلوچ کا جلسہ دیکھ کر اس پر کسی یورپی یا مشرقی یورپی ملک کے کسی احتجاج کا گمان گزرتا تھا۔ انسانوں کا ایک جم غفیر جس میں خواتین کی بڑی تعداد شریک تھی اس بات کا اظہار کررہا تھا کہ وہ بلوچستان کی شورش کو عوامی تائید فراہم کررہے ہیں۔ یہ تمام پہلو بلوچستان کی دہشت گردی کے حوالے سے خوفناک ہے۔ یہ حالات اس بات کے متقاضی بھی ہیں بلوچستان کے معاملات کو محض طاقت سے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔ یہی نہیں بلکہ بلوچستان کی اس شدت پسندی کو سوشل میڈیا کے ذریعے بھی فروغ مل رہا ہے۔ بلوچستان کے حالات حکمت عملی میں تبدیلی کا تقاضا کرتے ہیں۔ خدا خدا کرکے پاکستان کے بڑے مراکز والوں بالخصوص پنجاب والوں کو اب یہ احساس ہونے لگا ہے کہ چھوٹے صوبوں اور قومیتوں کے بارے میں صرف ریاست کا دقیانوسی بیانیہ ہی سچ اور حرف ِ آخر نہیں۔ پنجاب والوں نے گزشتہ دو سال سے ریاست کے جو رنگ دیکھے اس نے ان کی آنکھوں پر پڑے بہت سے پردے ہٹا دیے ہیں اور وہ مطالعہ پاکستان کی تاریخ سے اب باہر آرہے ہیں۔ ایسے میں بلوچ انتہا پسندوں نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کو شناختی کارڈ دیکھ کر نشانہ بنایا گیا۔ یوں پنجاب کا ہمدردانہ رویہ اچانک غصے اور نفرت میں بدل گیا۔ ممکن ہے کہ اس حکمت عملی کا مقصد یہی ہو کہ جواب میں پنجاب سے ردعمل آئے گا اور یوں خانہ جنگی کا ایک ماحول بنے گا۔ ماضی میں مہاجر پٹھان اور مہاجر سندھی فسادات کے یہ ڈرامے پاکستان میں چلتے رہے ہیں۔ اب پنجابی بلوچ تصادم کا ڈراما دیکھنا ہی باقی ہے۔

وہ دن کس قدر برا تھا جب ایک آمر نے پہاڑوں پر بیٹھے ناراض بلوچ سردار نواب اکبر بگٹی کو کوہلو کی غار میں نشانہ بنایا تھا اور پھر اس کارروائی کے لیے کئی تاویلات پیش کی گئی تھیں۔ اکبر بگٹی کی لاش کو جس خوف ودہشت اور کسمپرسی میں دفن کر دیا گیا تھا۔ اس سے مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ مزید اْلجھ کر رہ گیا تھا۔ آج اٹھارہ برس بعد اکبر بگٹی قبر سے بول رہا ہے۔ اس شخص کی برسی پر بلوچستان کا لہو لہان ہوجانا اس بات کا ثبوت ہے کہ اکبر بگٹی کو قتل کرنے کی حکمت عملی درست نہیں تھی۔ طاقت کا نشہ ایسا ہے کہ جب چڑھ جائے تو پھر عقل وخرد اور دور اندیشی رخصت ہوجاتی ہے۔ اکبر بگٹی کو چند برس ہی مزید برداشت کر لینا تھا۔ بزرگ سردار مزید کتنا جی لیتا۔ چند ہی برس یا ایک دہائی مگر طاقت اور زور آزمائی میں وہ کچھ کر ڈالا گیا جو اب تک آتش فشاں کی طرح لاوا اْگل رہا ہے۔

بھارت سے کچھ سیکھ لینا چاہیے تھا کہ جب اکبر بگٹی کو قتل کیا گیا تو بھارتی میڈیا میں ایک بحث چلی کہ ہم کب تک کشمیرکے شعلہ بار لیڈر سید علی گیلانی کے سختی اور نظریات کے کھرے پن کا بوجھ اْٹھا کر پھریں گے۔ انہیں بھی اکبربگٹی طرز پر راستے سے ہٹالینا چاہیے۔ بھارت چاہتا تو یہ سب کچھ کر گزرتا مگر اس نے باغی قوم کے بزرگ ہیرو کی فطری موت کا برسوں انتظار کیا۔ پاکستان کے آمر جنرل پرویز مشرف یہ حکمت عملی اپنا نہ سکے اور یوں پاکستان کو ایک نیا زخم دے دیا گیا جو اب اٹھارہ برس سے رستا چلا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کے اسباب وعوامل میں زیادہ تر مقامی اوربہت کم بیرونی ہیں۔ بیرونی دنیا کا اپنا مفاد ہے۔ جس میں پاکستان کی روایتی دشمنی اور چین کی مخاصمت شامل ہے۔ دشمن تو ایران کے بھی کم نہیں تھے مگر ایران نے چابہار بندرگاہ تعمیر بھی کرلی اوراس کو فعال بھی کردیا پاکستان ابھی تک گوادر بندرگاہ کے چکروں میں اْلجھ کر رہ گیا ہے۔ دشمن قوتوں کو اب بھی یقین ہے کہ وہ گوادر بندرگاہ کو پاکستان اور چین کے لیے اس قدر گراں بنا دیں گے وہ اس منصوبے کو ترک کرنے پر مجبور ہوں گے۔ بھارت اس کے لیے ایک فنڈ مختص کیے بیٹھا ہے۔

یہ دنیا کی واحد دہشت گردی ہے جس کا اعلانیہ سرپرست بھارت ہے۔ چین مخالف عالمی طاقتیں بھی کسی طور پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقات کنفیوژن کا شکار ہیں۔ وہ چین کی طویل المیعاد دوستی اور امریکا کے وقتی مفاد کے درمیان اْلجھ کر رہ گئے ہیں۔ پاکستان کے لیے مغرب سے آنے والی ہوائیں اچھے پیغامات نہیں دے رہیں۔ ان کی درازوں میں پڑے نقشے اور نو ایگزٹ فرام پاکستان جیسی کتابوں کے مصنفین پاکستان کے لیے اچھے مستقبل کی پیش گوئی نہیں کر رہے۔ پاکستان کو گھسٹ گھسٹ کر چلنا ہے اور اسے پرلگا کر اْڑنے نہیں دینا۔ سی پیک شاید پاکستان کے لیے پروں جیسی اہمیت کا حامل تھا اسی لیے پاکستان کو گھسٹتے اور رینگتے دیکھنے کے سب خواہش مند یہ پرکترنے پر اتفاق کیے بیٹھے ہیں اور ہمار قومی کنفیوژن اس حکمت عملی کو راہ دے رہا ہے۔ بلوچستان میں سیکورٹی فورسز ہوں یا بلوچ باشندے دونوں پاکستانی ہیں دونوں کے درمیان نقطہ ٔ اتصال قائم کرنا بہر طور ریاست کی ہی ذمہ داری ہے۔ بلوچستان کو اپنے وسائل لٹ جانے کا غم ہے۔ انہیں اپنی سرزمین پر اقلیت میں بدلنے کا خوف ہے۔ انہیں اپنے وسائل کے لٹ جانے کا غصہ ہے تو ان معاملات پر بات کی جا سکتی ہے اور ان معاملات کو منصفانہ بنیادوں پر طے نہ کرکے ہم انہیں عالمی طاقتوں کا چارہ بنا رہے ہیں۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ زخم مقامی ہے اس بھنبھنانے والی مکھیاں غیر ملکی ہیں۔ مکھیوں کو روکنے سے پہلے زخم کو رفوکرنا ناگزیر ہے۔