عوام خوش ہوں گے تو کاروبار چلیں گے، ہم 24 کروڑ عوام کیساتھ ہیں، ان 40 لوگوں کیساتھ نہیں جنہوں نے آئی پی پیز لگائیں،حافظ نعیم الرحمان
بجلی کی قیمتوں اور ان کے اوپر ٹیکسوں نے عوام کوبری طرح متاثرکیا ہے اوروہ اپنے دوسرے ماہانہ اخراجات پورے کرنے کے قابل نہیں رہے ہیں
حکومتی ارکان اور پارٹیاں یہی کہتے رہے ہیں کہ آئی پی پی پیز معاہدوں کا خاتمہ نا ممکن ہے۔ اس سے پاکستان کو عالمی سطح پر بھاری مالی نقصان کا سامنا ہو گا
ملک بھر کی تاجر برادری اور عوام نے اتحاد اور یکجہتی کے ذریعے ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی کی ہڑتال کامیاب اور موثر رہی ۔ ملک کی سیاسی پارٹیاں اور خاص طور حکومت میں شامل سیاسی پارٹیاں جو اب عالمی اسٹیبلشمٹ کا حصہ سمجھا جاتا ہے اسلام آباد دھرنے سے قبل حکومتی ارکان اور پارٹیاں یہی کہتی رہی ہیں کہ آئی پی پی پیز معاہدوں کا خاتمہ نا ممکن ہے۔ اس سے پاکستان کو عالمی سطح پر بھاری مالی نقصان کا سامنا ہو گا۔ لیکن امیر جماعتِ اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے دھرنے کے دوسرے دن یہ کہہ کر سب کو خاموش کر دیا تھا کہ آئی پی پیز میں 52فیصد کمپنیز مقامی سرمایہ کاروں کی ہیں جس میں سے اکثر کا تعلق حکومتی ارکان میں ہے ۔اس کے بعد صورتحال نے پلٹا کھایا اور حالات کویکسر تبدیل ہو گئے۔جس کے بعد جماعتِ اسلامی نے اپنی کوشش سے کامیاب مذاکرات کیے۔ مذاکرات اس شرط پرشروع کیے گئے کہ ملک میںآئی پی پیز کے مظالم کو بند کرنا ہو گا ۔14دن جاری رہنے والے اس دھرنے میں متعدد مرتبہ مذاکرات میں رکاوٹ رہی لیکن آخر کا ر حکومت اور جماعتِ اسلامی کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوئے گئے۔کامیاب مذاکرات کے بعد جماعتِ اسلامی پاکستان نے اپنا دھرنا مؤخر کرنے کا اعلان کر دیا ہے لیکن حکومت کو بھی اس بات کا احسا س ہو گا کہ دھرنا مئوخر ہو ا ہے ختم نہیں کیا گیا ہے۔ ان مذاکرات میںسب سے اہم بات یہ تھی کہ یہ مکمل طور سے عوام کے لیے کیے گئے ہیں ۔
پاکستان بزنس گروپ کے بانی و سرپرست اعلیٰ فراز الرحمان، چیئرمین علی عرش اور پریذیڈنٹ ناصر شیخ نے کہا ہے کہ توانائی کی بڑھتی قیمتوں سے عوام، صنعتوں ، زراعت اور برآمدات کے شعبے پر بوجھ پڑ رہا ہے، توانائی کی قیمتوں میں کمی لانے کیلئے پاور سیکٹر میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔
آئی پی پیز کی لوٹ مارکا مسئلہ حل کرنے کیلئے صدرمملکت آصف علی زرداری کی جانب سے بزنس کمیونٹی کے ساتھ کمیٹی بنانے کا خیرمقدم کیا ہے۔ بزنس کمیونٹی چاہتی ہے ۔حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہ ہے کہ عوام خوش ہوں گے تو کاروبار چلیں گے، ہم 24 کروڑ عوام کیساتھ ہیں، ان 40 لوگوں کیساتھ نہیں جنہوں نے آئی پی پیز لگائیں۔
بجلی کا ریٹ 60 روپے،کمرشل ریٹ 80 روپے ہے اس پر کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ آئی پی پیز نے اس سال صارفین کے دو ہزار ارب روپے ہڑپ کئے ہیں جبکہ اگلے سال 2800 ارب روپے ہڑپ کرنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔آئی پی پیز والے جتنی بجلی بنائیں اس کا پیسہ لیں۔ 3 پلانٹس سے زیرو یونٹ پر 2 ہزار کروڑ روپے وصول کئے گئے ، ایسا کہاں ہوتا ہے؟۔انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت کو حالیہ سالوں میں سب سے بڑاجھٹکا آئی پی پیز اور بجلی کے فرسودہ نظام نے دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگرموجودہ حالات میں چین اپنے قرضوں کا مطالبہ کردے توپاکستان فوری طورپردیوالیہ کرجائے گا۔
ایف پی سی سی آئی کے قائم مقام صدر ثاقب فیاض مگوں نے آگاہ کیا ہے کہ ایف پی سی سی آئی نے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز کے کیپیسٹی چارجز کے سنگین مسئلے پر سندھ حکومت سے تعاون طلب کیا ہے کیونکہ صوبے میں بجلی کی قیمتوں کی وجہ سے نئی انڈسٹری نہیں لگائی جارہی ہے اور پہلے سے موجود انڈسٹریز کو بھی اپنی پیداوار اور برآمدات جاری رکھنے کے لیے اسی بنا پر چیلنجز کا سامنا ہے
بجلی کے نرخ ناقابل برداشت ہونے کی وجہ سے صنعتکاروں کے لیے پریشانی کی سب سے بڑی وجہ بن چکے ہیں۔ واضح رہے کہ سندھ کے وزیر برائے صنعت و تجارت جام اکرام اللہ دھاریجو نے فیڈریشن ہاؤس کا دورہ کیا؛ جہاں انہو ں نے تاجروں اور صنعتکاروں کے تحفظات، شکایات اور سفارشات سنیں۔اس موقع پر صوبہ سندھ کے مختلف چیمبرز کے صدور بھی موجود تھے۔
کراچی میں قائم صنعتی زونز میں صنعتی پلاٹس کی قیمت 30 سے 35 کروڑ روپے فی ایکڑ تک پہنچ چکی ہے اور کوئی بھی جنیوئن صنعتکار ملک میں کاروبار کرنے کی موجودہ لاگت اور کاروبار کرنے میں مشکلا ت کی وجہ سے اتنی رقم ادا کرنے کو تیار نہیں ہے۔ڈیمانڈ کی کہ صنعتی پلاٹ صنعتکاروں کو 2 کرو ڑ روپے فی ایکڑ پر مہیا کیے جا ئیں ۔سندھ کے صوبے میں اتنی معاشی صلاحیت موجود ہے کہ اس کی اپنی تفصیلی صنعتی پالیسی کاروباری برادری کی مشاورت سے بنائی جا نی چاہیے۔
صنعتکاروں کو امن و امان کے مسائل کا سامنا ہے؛ جو کہ اب سنگین نوعیت کے ہو چکے ہیں۔ کیونکہ، ہراساں کرنے، تشدد، چوری و ڈکیتی اور اغوا برا ئے تاوان کے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں اور کو ئی بھی سرمایہ کار اس قسم کی صورتحال میں انو یسمنٹ نہیں کرتا ہے۔ مختلف شہروں میں صنعتی اور اقتصادی زونز میں بنیادی انفراسٹرکچر کو مکمل کیا جانا چاہیے؛ تاکہ تاجر برادری قومی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو سندھ آنے کے لیے مدعو کرسکے اور وہ ہمارے ساتھ سرمایہ کاری ،انڈسٹری اور جوائنٹ وینچرز کے مواقع تلاش کرسکیں ۔
سندھ حکومت نے معیشت اور پاکستانی عوام کے مفاد میں آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کے از سر نو جائزے اور ری اسٹر کچرنگ کی کوششوں میں ایف پی سی سی آئی کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سرکاری مؤقف ہے کہ آئی پی پیز کے ساتھ اس مسئلے کے حل کے لیے فوری طور پر مصروف عمل ہونا چاہیے۔ سندھ میں انڈسٹر یلا ئز یشن ان کے وژن کا بنیا دی جز و ہے اور اسے زمینی حقائق سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ایف پی سی سی آئی کو آن بورڈ لیا جائے۔سند ھ حکومت صنعتی بورڈ میں مختلف چیمبرز کو صوبے کی انڈسٹر یلا ئز یشن کے لیے ایک جامع نقطہ نظر وضع کر نے کے لیے مناسب نمائندگی بھی دیں گے۔
اقتصادی ماہرین اور صنعتی اسٹیک ہولڈرز نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ معاشی نمو کو فروغ دینے اور کاروباری اداروں سمیت عوام پر بوجھ کم کرنے کے لیے شرح سود میں نمایاں کمی کی جائے تاکہ سرمائے کی کمی کو دور کیا جائے اور صنعتوں کو فروغ حاصل ہو بصورت دیگر زائد شرح سود کے معشیت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ ملک میں جاری اقتصادی چیلنجز اور بلند افراط زر کے باوجود اسٹیک ہولڈرز کے درمیان بڑے پیمانے پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ شرح سود میں کمی ملک کی معاشی بحالی اور پائیدار طویل مدتی خوشحالی کے حصول میں ایک اہم اقدام ہو سکتا ہے۔پاکستان کی موجودہ پالیسی ریٹ 19.5 فیصد اس کے ہمسایہ ممالک چین اور بھارت کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ ہے اور ان ممالک کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش اور ویتنام کو برآمدی منڈی میں مسابقتی برتری حاصل ہے جو پاکستان کے ٹیکسٹائل کے زیادہ تر صارفین کو حاصل رہی ہے، صنعتکار برادری بڑھتی ہوئی مہنگائی اور شرح سود کے درمیان پیداواری لاگت کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے سخت جدوجہد کر رہے ہیں۔اگر موجودہ پالیسی ریٹ برقرار رہتا ہے تو پاکستان کو اپنے برآمدی صارفین کو مزید کھونے کا خطرہ ہے جو ممکنہ طور پر تجارتی خسارے کو مزید بڑھا سکتا ہے۔ کم شرح سودکاروباری اداروں کے لیے قرض لینے کی لاگت کو کم کر سکتی ہے جو توسیع، ٹیکنالوجی کو اپنانے اور افرادی قوت کی ترقی میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔اس کے نتیجے میں ملکی و بین الاقوامی دونوں مارکیٹوں میں پیداواری صلاحیت اور مسابقت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔شرح سود میں کمی چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں (ایس ایم ایز) کو اہم مالی ریلیف فراہم کر سکتی ہے جس سے وہ آپریشنز کو بڑھانے کے لیے جدت اور روزگار کے مواقع پیدا کر سکتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے جہاں فعال اور جرات مندانہ معاشی پالیسیاں ضروری ہیں۔شرح سود کو جارحانہ انداز میں کم کرکے ترقی و خوشحالی کے لیے سازگار ماحول کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
بجلی کی موجودہ قیمت پیداوار، کاروبار، روزگاراور برآمدات کے لئے ضرررساں ہے۔ توانائی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کی تباہ کن پالیسی کی وجہ سے مہنگائی میں کمی اورعوام کے حالات میں بہتری ممکن نہیں۔ مہنگائی سے متعلق سرکاری اعداد وشمارزمینی حقائق کے مطابق نہیں ہیں۔ توانائی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہوتواشیائے ضروریہ کس طرح سستی ہوسکتی ہیں۔ ضرورت کی تمام اشیاء کی قیمت توانائی اور ٹرانسپورٹ کی قیمت سے مشروط ہوتی ہے اورتوانائی مہنگی کرکے عوام کوکسی قسم کا ریلیف دینا صرف بیانات میں ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ بجلی کی قیمتوں اور ان کے اوپر ٹیکسوں نے عوام کوبری طرح متاثرکیا ہے اوروہ اپنے دوسرے ماہانہ اخراجات پورے کرنے کے قابل نہیں رہے ہیں۔ قرض، زیوارت اورگھرکی دیگراشیاء بیچنے کا سلسلہ بھی زیادہ عرصہ تک نہیں چل سکتا نہ ہی ہرمہینے قرضہ لیا جا سکتا ہے۔ اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ بجلی کی قیمتوں نے چالیس فیصد افراد کوخط غربت سے نیچے دھکیل دیا گیا ہے اورانکی تعداد میں اضافہ جاری ہے۔ غربت ختم ہونے کے بجائے غریب ختم ہو رہا ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ بجلی کے نرخ اورٹیکسوں کے خلاف جماعت اسلامی کا احتجاج ایک مثبت اقدام تھا۔ یہ احتجاج سیاسی مقاصد کے لئے نہ تھا بلکہ قوم کومصیبت سے چھٹکارا دلوانے کے لئے تھا مگر آئی پی پیزسے ملی بھگت کرنے والوں نے اس میں حصہ نہ لے کرخود کوبے نقاب کیا ہے۔ حکومت کی یقین دہانیوں پرجماعت اسلامی کا احتجاج ختم ہوتے ہی بجلی کے نرخ میں دوروپے چھپن پیسے کا اضافہ کرکے حکومت نے عوام کے سامنے اپنی بے بسی ثابت کر دی ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ موجودہ حالات میں نہ توحکومت مہنگائی کم کرنے کے لئے کچھ کررہی ہے اورنہ ہی اسٹیٹ بینک کی کوششوں سے کوئی فائدہ ہورہا ہے۔ مہنگائی اسی وقت کم ہوسکتی ہے جب مافیا کے مفادات کو پس پشت ڈال کربھارت سے تجارت شروع کی جائے کیونکہ وہاں زیادہ تراشیائے خوردونوش پاکستان کے مقابلہ میں بہت سستی ہیں اورانکی درآمد پاکستانی مافیا کی کمرتوڈ ڈالے گی جو کچھ لوگوں کے لے قابل قبول نہیں ہے۔ اسی طرح ایران اورافغانستان میں جواشیاء پاکستان کے مقابلہ میں سستی ہیں انھیں درآمد کیا جا سکتا ہے مگراسکا فائدہ صرف اسمگلروں تک محدود رکھا جاتا ہے۔