پاکستان آئین کی رو سے ایک اسلامی مملکت ہے اور عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے یہاں کا سیاسی نظام چل رہا ہے۔ اسی لیے یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلاتا ہے۔ اب کیا یہ صرف کہلانے ہی سے اسلامی مملکت اور اسلامی جمہوریہ بن جائے گا؟ اگر ایسا ہوتا تو کیا ہی اچھا ہوتا‘ لیکن صاحب! ایسا ہرگز نہیں ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے کچھ کرنا ہوگا اور کچھ کرنے کے لیے اٹھنا ہوگا، ہم سب سے پہلے یہ دیکھیں کہ ہمارے لیے بطور مسلمان اس دنیا میں چیلنجز کیا کیا ہیں؟ مغرب کہتا ہے کہ آبادی بم ہے، ہم نے مان لیا اور بہبود آبادی کے محکمے کھڑے کردیے، مغرب نے کہا کہ پاکستان کا ایٹم بم اسلامی بم ہے۔ ہم نے یہ بھی مان لیا اور معذرت خواہانہ رویے اختیار کرتے چلے جارہے ہیں۔ دوسری جانب بھارت اور مغرب ہم پر چڑھ رہے ہیں اور مسلسل چڑھ رہے ہیں ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم کو اپنے کردار سے دنیا کا مقابلہ کرنا تھا لیکن ہم اس اصول کو بھول ہی گئے حالانکہ یہی ہماری طاقت تھی اور اب بھی ہے۔ ہم کو عدل کی طاقت سے دنیا کا مقابلہ کرنا تھا مگر ہم اسے بھی بھول گئے اور اس قدر بھول گئے کہ حکومت کیا نجی اداروں میں اب عدل نہیں رہا، جس کو کسی ادارے میں کوئی انتظامی عہدہ مل جائے وہ اسی عہدے کی بنیاد پر ماتحتوں کے ساتھ وہ سلوک کرتا ہے جو مرہٹوں نے بھی مسلمانوں کے ساتھ نہیں کیا ہوگا۔ یہ تو ہمارا کردار ہے اور سب سے بڑی خرابی اور المیہ یہ ہے کہ جس نے کسی ادارے میں کسی کو انتظامی ذمے داری دی ہوتی ہے اور وہ اس ذمے داری کو دوسروں کے لیے عذاب بنا دیتا ہے اسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ایسے جیسے خود انتظامی عہدے پرکوئی غنڈہ بٹھایا ہو۔
پاکستان میں کہیں بھی چلے جائیں، نجی اداروں کا جائزہ لیں ایک سے بڑھ ایک کہانی ملے گی۔ ہم کو بطور مسلمان دوسروں کے لیے مثال بن کر رہنا تھا کیا ہم یہ کام کر رہے ہیں؟ آئیے اب دیکھیے کہ دنیا میں ہمارے لیے کس طرح کے چیلنجز ہیں ان کی فہرست بنائیے اور دیکھیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ یہ تلخ حقائق ہیں کہ: منشیات کی عالمی تجارت سالانہ 321 بلین ڈالر کی ہے۔ دنیا بھر میں شراب کی فروخت سالانہ 1,600 بلین ڈالر ہے۔ اسلحے کی عالمی تجارت کی مالیت تقریباً 100 بلین ڈالر سالانہ ہے۔دنیا میں جسم فروشی کے کاروبار کی مالیت تقریباً 400 بلین ڈالر سالانہ ہے۔ عالمی جوئے کے کاروبار کی مالیت تقریباً 110 بلین ڈالر سالانہ ہے۔ دنیا میں سونے کی تجارت 100 بلین ڈالر سالانہ ہے۔ کمپیوٹر گیمز کا کاروبار دنیا بھر میں سالانہ 54 بلین ڈالر کا ہے۔
اسلام اس کے خلاف کھڑا ہے۔ اور عالم اسلام کے پاس کیا ہے؟ کیا ہم دنیا کے سامنے اپنا کوئی کردار ادا کر رہے ہیں؟ سیرت اور کردار کی تعمیر ہمارا ہتھیار تھا، ہم نے اسے چھوڑ دیا‘ قرآن ہمارا ہتھیار تھا ہم نے چھوڑ دیا، رسول اللہ کی اتباع ہمارا ہتھیار تھا ہم نے اسے چھوڑ رکھا ہے اور ہم چلے ہیں دنیا کا مقابلہ کرنے، پہلے ہم یہ تو دیکھیں بطور مسلمان ہم دوسرے مسلمان کا کس حد تک احساس کرتے ہیں پھر ہمیں امت مسلمہ کے اتحاد کی جانب دیکھنا ہوگا ایک ایک شخص کا کردار ہی مل کر امت مسلمہ کا کردار بنتا ہے آپ دیکھیے کہ دنیا کی معاشی مارکیٹ میں کیا چل رہا ہے، عالمی معیشت کی مارکیٹ بین الاقوامی کمپنیوں کے سربراہوں کے ذریعے چلائی جاتی ہے جسے بڑے ممالک کے حکمرانوں اور انٹیلی جنس اداروں کی سرپرستی میسر ہے۔ اگر دنیا شراب، نشہ آور اشیاء اور منشیات فروخت نہ کر کے اسلام اور اس کے قانون کو تسلیم کر لے تو منشیات اور شراب مافیا کی تجارت میں 2000 ارب ڈالر کا نقصان ہو گا‘ اسلام نا حق خون ریزی سے منع کرتا ہے جس کا مطلب ہے کہ 100 بلین ڈالر کی اسلحہ مافیا کی تجارت بند، اسلام زنا کو ممنوع قرار دیتا ہے، لہٰذا اس سے جسم فروشی کی تجارت بند ہوتی ہے اور اس سے جڑی ہوئی انٹرنیٹ اسٹوریز کی سالانہ 400 بلین ڈالر کی مارکیٹ ہے۔ ہوٹل، تفریحی مراکز، ریزورٹس اور سیاحتی کمپنیاں جن کی سرگرمیاں جسم فروشی پر مبنی ہیں یہ سب بند ہوجائیں گی۔ جو اسلام میں حرام ہے، لہٰذا اس مافیا کی 110 بلین ڈالر کی مارکیٹ بند ہوتی ہے۔ 100 بلین ڈالر کی فحاشی عریانی کی مارکیٹ بند ہوتی ہے۔ اسلام سود کے خلاف ہے اس عالمی مارکیٹ 2685 بلین ڈالر ہے۔ اب بتائیے کہ کیا عالمی مافیا اسلام کا خیرمقدم کرے گا؟ جواب: نہیں! ہاں ایک راستہ ہے کہ ہم دنیا کو زیر کر سکتے ہیں اپنے دام میں لاسکتے ہیں اور امن بھی قائم کرسکتے ہیں وہ راستہ ہے قرآن اور سنت پر عمل کرنے کا یہی وہ راستہ جس سے ہم عالمی مافیا کو میڈیا خریدنے سے روک سکتے ہیں۔ جب ہم اور ہم میں سے کچھ نااہل عہدیدار خوشامد کرکے‘ منصب پالیں گے اور اس منصب کو پھر وہ اپنے ماتحتوں پر ظلم کرنے کے لیے استعمال کریں گے‘ انہیں بلاوجہ سزا دیں گے‘ ان کی تنخواہوں کی کٹوتیاں کریں گے۔ ہم کیسے اچھے مسلمان بن سکتے ہیں؟ صرف کہنے سے کوئی مسلمان نہیں بن سکتا‘ اس کے لیے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں حدیث پکڑنا پڑتی ہے ورنہ یہ عالمی تجارت جاری رہے گی اور اسلام کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔