اطہر ہاشمی صاحب کی کتاب ’خبر لیجیے زباں بگڑی‘‘ کی تقریب اجرا پریس کلب میں منعقد ہوئی۔ کئی وجوہات کے باعث ہم اس میں شرکت نہ کرسکے۔ جس کا اب تک افسوس ہے۔ اور رہے گا۔ سید اطہر علی ہاشمی پاکستان کے ساتھ کے تھے۔ اگست 1947ء میں پیدا ہوئے اور اگست ہی میں انتقال کرکے شہر عدم منتقل ہوگئے۔ ان کا انتقال 2020ء میں ہوا، یعنی آج ان کے انتقال کو 4 سال گزر گئے۔ لیکن ان سے محبت، عزت اور توقیر کا تعلق رکھنے والوں کو یہ ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے۔ بال تو اُن کے بہت پہلے سفید ہوگئے تھے غالباً کبھی خضاب کا استعمال کیا ہی نہیں ہوگا، اس بارے میں صحیح بات تو نیلوفر سلطانہ ان کی بیگم صاحبہ ہی بتائیں گی کہ یہ اُن کی اپنی مرضی اور خواہش تھی یا بیگم صاحبہ کو وہ اسی طرح اپنے ہیرو لگتے تھے۔
بہت عرصے قبل اختر عباس صاحب جو کچھ عرصے اردو ڈائجسٹ کے مدیر رہے تھے۔ بات ہوئی تو انہوں نے دریافت کیا کہ آج کل جسارت کے مدیر اعلیٰ کون ہیں ہم نے کہا اطہر ہاشمی صاحب ہیں کہنے لگے وہ بہت زیادہ عمر رسیدہ نہیں ہوگئے؟ ہم نے کہا نہیں ان کے بال سفید ہیں لہٰذا آپ کو محسوس ہوا ہوگا۔ اُن کی آواز کی شگفتگی اور توانائی کی لہریں تو فون پر بھی آپ تک پہنچی ہوں گی؟
سچ یہ ہے کہ اطہر ہاشمی صاحب کے بارے میں یہ کہا جائے کہ وہ آخری لمحے تک جو بہتر سال کے جوان تھے تو غلط نہ ہوگا۔ وہ آخر تک جسارت کے آفس تشریف لاتے رہے، یہاں تک کہ ان برسوں میں بھی جب کورونا کے مسائل چل رہے تھے لاک ڈائون تھا لیکن وہ اپنی ذمے داریاں نبھانے کے لیے ہر چند دن بعد آفس میں موجود ہوتے۔ اُن کی طویل غیر حاضری کبھی نہیں ہوئی۔ الا یہ کہ وہ شہر میں موجود نہ ہوں وہ ایک طویل عرصے اردو نیوز جدہ کے میگزین ایڈیٹر رہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وہ اردو نیوز جدہ کے بانیوں میں سے تھے تو غلط نہ ہوگا۔ اس سے قبل وہ اردو کے استاد رہے۔ صحافت اور خاص طور سے اردو صحافت میں انہیں استادوں کے استاد کا درجہ حاصل تھا۔ وہ ایک زمانے میں روزنامہ امت کے ڈپٹی ایڈیٹر انچیف بھی رہے۔
اردو میں اپنی خاص دلچسپی کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ انہیں ابتدا میں ابن صفی کو پڑھنے کا چسکا لگ گیا تھا۔ لہٰذا انہیں پڑھتے پڑھتے اردو سیکھنے اور سمجھنے کی راہ پر چل پڑے۔ اس سے یہ بات والدین کو سیکھنی چاہیے کہ بچوں کے مطالعے کی راہ میں حائل نہ ہوں نہ انہیں درسی کتابوں کا کیڑا بننے پر مجبور کریں۔ یوں بھی آج کل اردو پڑھنے اور سمجھنے والے کم سے کم ہوتے جارہے ہیں۔ اطہر ہاشمی صاحب ہمارے لیے تو لغت کا درجہ رکھتے تھے جو ایک فون کی دوری پر ہوتے تھے۔ کسی بھی لفظ کے بارے میں پوچھنے پر تفصیل سے بتاتے یہ بھی بتاتے کہ یہ لفظ اصل میں کس زبان کا ہے۔ اطہر ہاشمی صاحب نہ صرف اردو زبان بلکہ عربی، فارسی، ہندی اور سنسکرت پر بھی مضبوط گرفت رکھتے تھے۔ کسی لفظ کے معنی مذکر، مونث اور تلفظ سمجھانے کے بعد بھی کہتے کہ ایک نظر لغت پر بھی ڈال لیں۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ اور معنی بھی معلوم ہوجائیں۔ یہ حقیقت ہے کہ لغت اردو لکھنے پڑھنے والوں کے لیے بہت کار آمد ہے۔ انہیں اس پر کچھ وقت ضرور لگانا چاہیے۔
ہم نے اپنی افسانوں کی کتاب (پھولوں کی ٹوکری) تبصرے کے لیے اُن کے حوالے کی تو انہوں نے بڑے شگفتہ انداز میں ہمیں بتایا کہ ’’تمہارے اندر مزاح لکھنے کی صلاحیت بخوبی موجود ہے جو تمہارے افسانوں میں کہیں کہیں جھلکتی ہے‘‘۔ ہمیں اپنی ایک پوشیدہ تحریری صلاحیت کی خبر ان سے سن کر بہت خوشی ہوئی۔ پھر جب ان کے ہاتھوں کا لکھا تبصرہ موصول ہوا تو اس کی ابتدائی سطر ہماری کالم نگاری کے بارے میں تھیں جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’غزالہ عزیز ایک باخبر صحافی اور معتبر کالم نگار ہیں‘‘۔ آگے بھی کئی سطریں ہیں۔ افسانہ نگاری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’غزالہ عزیز کالم نگار کے علاوہ ایک بہت عمدہ اور پختہ کار افسانہ نگار کے روپ میں سامنے آئی ہیں اور اس میں شاید زیادہ کامیاب ہیں‘‘۔
اطہر ہاشمی صاحب کے یہ جملے ہمیں آج بھی پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اردو کے جید استاد کی طرف سے ہمیں قدر افزائی کے کئی ایوارڈ حاصل ہوگئے ہیں۔ ان کے چاہنے والوں یعنی اردو کے چاہنے والوں کو ان کی کتاب ’’خبر لیجیے زباں بگڑی‘‘ ضرور خریدنی چاہیے اور نشانی کے طور پر اپنے پاس بھی رکھنی چاہیے اور تحفے میں بھی دینی چاہیے۔ نیلو فر سلطانہ یعنی اطہر ہاشمی صاحب کی بیگم صاحبہ نے اس کی اشاعت کروا کر اردو کے کاندھے پر احسان کیا ہے۔ جس کے لیے ہر اردو داں کو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔