کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) ہم اردوکو اپنانے سے شرماتے اورانگریزی کو ترجیح دیتے ہیں‘ اردو ملک میں بیشتر آبادی کی مادری زبان نہیں ‘ سرکاری خط وکتابت اردو میں ہونے سے عام آدمی بااختیار ہوجائے گا اس لیے بیوروکریسی اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ‘ ادیب اردو لکھتے ہوئے پاکستانی زبانوں کے الفاظ کا استعمال کیا کریں‘ اردو وفاقی اکائیوں کو متحد کرتی ہے۔ان خیالات کا اظہار نائب امیر جماعت اسلامی کراچی و بلدیہ عظمیٰ کراچی میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر سیف الدین ایڈووکیٹ‘ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما، ماہر تعلیم تاج حیدر‘ سینئر کالم نگار، وفاقی جامعہ اردو شعبہ ابلاغ عامہ کے سابق چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان اور ماہرتعلیم، محقق اور گورنمنٹ کالج چترال کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ممتازحسین نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’ملک میں اردو ابھی تک سرکاری زبان کیوں نہیں بن سکی ہے؟‘‘ سیف الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ اردو ہماری قومی زبان ہے لیکن ہم اسے اپنانے سے شرماتے ہیں‘ تمام وزارتوں کے اعلامیے اردو کے بجائے انگریزی میں جاری کیے جاتے ہیں‘ آئین پاکستان اور عدالتی حکم ناموں کے باوجود اردو تا حال سرکاری زبان کا درجہ حاصل نہ کر سکی جبکہ تعلیمی اداروں میں بھی اردو کے بجائے انگریزی بولنے کو ترجیح دی جاتی ہے‘ بعض انگلش میڈیم اسکولوں میں اردو بولنے پر طلبہ کو اسکول سے نکالا جاتا ہے‘ 1973ء سے 2024ء آیا گیا لیکن اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی کیونکہ یہ ہماری کبھی ترجیح ہی نہیں رہی ہے‘ قوم زبان سے زندہ رہتی ہے‘ یہ زبان ہی ہے جو قوم کی تاریخ و تہذیب اور تمدن کی نمائندہ اور محافظ ہے‘ زبان کے بغیر قوم اندھی، بہری اور گونگی بن کر ختم ہو جاتی ہے‘ دنیا کی 5 ہزار سالہ تاریخ میں کوئی ایک قوم بھی ایسی نہیں جس نے کسی دوسرے کی زبان میں علم حاصل کرکے ترقی کی ہو‘ ترقی یافتہ ممالک جاپان، چین، جرمنی اور فرانس نے اپنی زبان کو ذریعہ تعلیم بنا کر کامیابی کی منازل کو چھوا‘ اگر وطن عزیز کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل کرنا ہے تو سب سے پہلے تمام علوم کو قومی زبان میں پڑھانے کا بندوبست کیا جانا چاہیے۔ تاج حیدر نے کہا کہ اردو ہماری قومی زبان ہے‘ وفاق کو متحد کرنے کی زبان ہے، چاہے سرکاری اسکول ہو، پرائیویٹ اسکول ہو یا پھر مدرسہ‘ اردو سب کی متفقہ اکائی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان کو بھی نہیں چھوڑا جا سکتا کیوں کہ وہ ہماری سرکاری زبان ہے جو بین الاقوامی برادری میں بات چیت کا ذریعہ ہے‘ دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں کو اپنانے میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے‘ سرکاری اداروں میں قومی زبان اردو کو رائج کرنے کے حوالے سے عوام نے بہت سی امیدیں لگا لی تھیں‘ 1973ء کے آئین میں اس امر کی یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ آنے والے 15 برس میں پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی مگر بدقسمتی سے آج تک اس کے نفاذ کے حوالے سے خاطر خواہ اقدامات نہ کیے گئے‘ ان 15برس کے اندر اگر قومی زبان اردو کو سرکاری زبان کا درجہ مل جاتا تو آج ہم بھی دنیا کی نظروں میں ایک ترقی یافتہ قوم ہوتے‘ اب تک سرکاری اداروں میں اردو کا نفاذ نہیں ہوا جو ایک بڑا سوالیہ نشان ہے اور پارلیمنٹ اس سلسلے میں کیا کر رہی ہے؟ اردو کے نفاذ کے لیے اسکولوں میں اردو کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے‘ اردو کے فروغ کے لیے اراکین پارلیمنٹ پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے۔ ڈاکٹر توصیف احمد نے کہا کہ پاکستان بنانے والی اصل طاقت مسلم لیگ کی قیادت نہیں تھی بلکہ وہ مسلمان بیوروکریسی تھی جو انگریز کی تربیت یافتہ تھی اس بیوروکریسی نے پہلے ہی دن سے پاکستان کے بنیادی معاملات کو اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا جس کے سرغنہ غلام محمد اور چودھری محمد علی تھے جس کی بنا پر پاکستان کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح نے انگریزی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہماری قومی زبان اردو ہوگی اور بنگالی کو قومی زبان بنانے سے انکار کیا دراصل یہ بیوروکریسی اردو کو کسی صورت بھی قومی زبان نہیں بنانا چاہتی تھی‘ بنگالیوں کے حقوق غضب کرنے کے لیے بیوروکریسی نے اس کو تھیوری کے طور پر استعمال کیا جس کو بعد میں سیاست دانوں نے اپنا لیا کہ اردو قومی زبان ہوگی‘ دراصل ان کا مقصد یہ نہیں تھا کہ اردو کو قومی زبان بنائیں گے بلکہ وہ بنگالی، سندھی، پشتو، پنجابی اور بلوچی کو رد کرنا چاہتے تھے اس لیے نعرے کے طور پر قومی زبان کا معاملہ رہا ہے‘ آج تک جتنی بھی حکومتیں آئیں انہوں نے سنجیدگی سے اردو کے نفاذ کے لیے عملی اقدامات نہیں کیے جو اقدامات ہوئے وہ نمائشی تھے یا تھوڑے بہت فیصلے ہوئے‘ اگر پنجاب، پختون خوا اور بلوچستان کے عدالتی نظام میں ساری جو خط و کتابت اردو میں ہوتی ہے تو اردو کو قومی زبان بنانا آسان ہوتا‘ بیوروکریسی عام آدمی کی زبان نہیں چاہتی تھی کیونکہ اس سے عام آدمی با اختیار ہو جاتا‘ اردو کا بلا وجہ بنگالی و دیگر زبانوں سے تصادم کرایا گیا ورنہ ہمارے ملک میں اردو رابطے کی زبان تھی اور آج بھی ہے مگر مستقبل میں بھی اردو کے سرکاری زبان بننے کا امکان نظر نہیں آتا۔ ممتاز حسین نے کہا کہ اردو رابطے کے زبان کی حیثیت قیام پاکستان سے پہلے ہی حاصل ہو چکی تھی‘ تمام حقائق کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ اردو پاکستان میں بہت کم لوگوں کی مادری زبان ہے‘ بیشتر آبادی اسے سیکھ کر بولتی اور لکھتی ہے اس لیے ان کا زباندانی کا معیار نہایت ناقص ہے‘ 12 سال اردو پڑھنے کے بعد بھی لوگ اردو میں سادہ عبارت درست طریقے سے نہیں لکھ سکتے اور نہ روانی سے گفتگو کر سکتے ہیں‘ اردو کو پاکستانی زبان بنانے کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے ادیب شاعر اردو لکھتے ہوئے موقع محل کی مناسبت سے پاکستانی زبانوں کے الفاظ کا استعمال کیا کریں‘ اس سے نہ صرف اردو کا ذخیرہ الفاط بڑھے گا بلکہ ملک کے ہر حصے کے لوگوں کو اس سے اپنائیت کی خوشبو آئے گی‘ جب لوگ اسے اپنی زبان سمجھیں گے تو یہ خود بخود قومی زبان بن جائے گی۔ اس کے علاوہ ذرائع ابلاع کو چاہیے کہ وہ اردو کے تمام علاقائی لہجوں کی نمائندگی یقینی بنائیں‘ لوگ جب اپنے مخصوص لہجے میں اردو بولتے سنیں گے تو ان کی جھجک ختم ہو جائے گی‘ اردو ہماری قومی زبان ہے اس کی ترقی اور اس کا فروع ہماری ترجیحات میں سرفہرست ہونا چاہئے۔