کراچی میں گل احمد انرجی لمیٹڈ کے چیئرمین دانش اقبال کی بیوی نتاشا نے شراب کے نشے میں دھت ہو کر کارساز روڈ پر اپنی پراڈو سے پانچ لوگوں کو کچل دیا جن میں یونیورسٹی کی طالبہ آمنہ عارف اور اس کا باپ عمران عارف بھی شامل تھے۔ آمنہ اپنے باپ کے ساتھ واپس گھر کی طرف آ رہی تھی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج اور ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مجرمہ نتاشا نے کس سفاکی و بے دردی سے موٹر سائیکل پر جاتے ہوئے باپ بیٹی کو پیچھے سے آ کر کچل دیا اور وہ دونوں موقع پر ہی جان بحق ہو گئے۔ پھر یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ اس مجرمہ کی حفاظت کے لیے پولیس کیا بلکہ رینجرز آگئے کیونکہ مجرمہ کا تعلق ایک امیر کبیر اور با اثر گھرانے سے تھا لیکن اس لیے رینجرز کا مجرمہ کے ساتھ وہ برتاؤ نہیں تھا جو عام مجرم کے ساتھ ہوتا ہے بلکہ کوشش تھی کہ تکریم میں کوئی کمی نہ آئے۔ اسی دوران مجرمہ کی کوئی رشتہ دار خاتون آتی ہیں اور رینجرز کا ایک آدمی ہاتھ کے اشارے سے اسے بتاتا ہے کہ اس نے چار لوگوں کو کچلا ہے مگر رشتہ دار خاتون کی بے حسی اور سفاکیت کہ اسے چار بے گناہ انسانوں کا رنج نہیں بلکہ قاتلہ کو بار بار گلے لگا رہی ہے اور تسلیاں دے رہی ہے جیسے قاتلہ اگر پریشان ہو گئی تو اسے ہارٹ اٹیک آ جائے گا یا پھر بے گناہ معصوم لوگوں کو جان سے مار کر اس نے کوئی فخریہ کارنامہ پیش کیا ہے اور اس پر شاباشی کی تھپکیاں وصول کی جا رہی ہیں۔
پاکستانی قانونی نظام کی روایت کے مطابق تفتیشی افسر، وکیل سب اس با اثر مجرمہ کو بچانے کی فکر میں لگ گئے۔ فوراً عدالت کا اسٹیج
بھی سجا دیا کیونکہ سب کو علم تھا کہ مجرمہ کی دفاعی خدمت کے عوض سب کی جیبیں گرم ہوں گی۔ نتاشا کو قاتلہ بننے کے بعد بھی مجرمہ نہیں بلکہ وی آئی پی شخصیت سمجھا جاتا رہا۔ پاکستان یا کراچی شہر میں یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا۔ کراچی میں ہی ڈیفنس کے علاقے میں 24 دسمبر 2012ء میں قاتل شاہ رخ جتوئی اور اس کے ساتھیوں نے ایک نوجوان شازیب کو قتل کر دیا۔ 10 سال بعد اکتوبر 2022ء میں پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے قاتل شاہ رخ جتوئی سمیت تمام ملزمان کی سزاؤں کے خلاف اپیل منظور کرتے ہوئے انہیں مقدمے سے بری کر کے آزاد کر دیا۔ مجھے تو انتہائی تکلیف ہوتی تھی یہ دیکھ کر کہ قاتل شاہ رخ جتوئی جب بھی پیشی کے لیے عدالت میں آتا۔ شرمندگی کے بجائے بے شرموں کی طرح کیمروں کے سامنے ہاتھ کی دو انگلیوں سے وکٹری کا نشان بنا کر دکھاتا اور میڈیا کو اس بات کا اشارہ دیتا کہ ہم اثر رسوخ، پیسے والے لوگ ہیں اور عدالت ہماری جیب میں ہے۔
بالکل اسی طرح حادثے کے بعد نتاشا کی مسکراہٹ بھی بتا رہی تھی کہ ہمارے اثر رسوخ اور دولت کے سامنے قانون کی کیا حیثیت۔
جس طرح شاہزیب کے والد کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ شخص قاتل کے گھر والوں سے کروڑوں روپے وصول کر کے بیرون ملک رہائش اختیار کر چکا ہے، ریمنڈ ڈیوس والے واقعہ میں مقتولین کے ورثہ نے پیسے وصول کر لیے، بالکل اسی طرح اس کیس میں بھی خدشہ یہی ہے کہ آمنہ اور اس کے والد کی دیت کے طور پر نتاشا کے گھر والے مقتولین کے ورثہ کو چند کروڑ ادا کر دیں گے اور معاملے کو رفع دفع کردیا جائے گا۔ ورثہ دیت لینے کے لیے کیسے راضی ہو جاتے ہیں، یہ ایک الگ داستان ہے جو نظر آنے والی حقیقت کے بالکل برعکس ہوتی ہے۔ جب فریقین کے درمیان صلح نامے طے پاتے ہیں تو مظلوموں کے حق میں مہم چلانے والے اینکر اور عوام بھی ناراض ہوتے ہیں کہ اگر صلح ہی کرنی تھی تو ہمارے بولنے اور احتجاج کی محنت کا کیا فائدہ؟ لیکن کون جانے کہ ان صلح ناموں کے پیچھے چھپی کیا کیا کہانیاں ہیں۔ مگر کیا ہم خود اتنا بھی ادراک و فہم نہیں رکھتے کہ کس طرح اس حالیہ حادثے میں بھی ایک طرف مجرمہ نتاشا کو پاگل قرار دیا گیا، اس کے ریمانڈ میں رد و بدل کی گئی، ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے پاکستان کے سارے ادارے صرف اس کے تحفظ و دفاع کے لیے ہی وجود میں آئے ہیں۔ مجرمہ کی حقیقت اس کے برعکس تھی وہ اگر پاگل ہوتی تو کیا وہ نو عدد بڑی کمپنیاں چلا رہی ہوتی؟ اس کے پاس برطانوی ڈرائیونگ لائسنس ہوتا؟ چلیں مان لیتے ہیں کہ مجرمہ
پاگل ہے تو پھر اس پاگل کے ساتھ ساتھ اس کے گھر والوں کو بھی پکڑا جانا چاہیے تھا جنہوں نے پاگل کو اتنی چھوٹ دے رکھی تھی کہ وہ آزادانہ گاڑی چلاتی پھرے اور لوگوں کی زندگیوں کے لیے خطرہ بن جائے۔
یہ واقعہ ہمارے ارباب اختیار بلکہ وزیراعظم کے علم میں بھی ضرور آیا ہوگا۔ انہوں نے اس کے لیے کیا کیا؟ یہ صرف ایک واقعہ نہیں۔ پاکستان میں ایسے سیکڑوں واقعات وقوع پذیر ہو چکے ہیں جن میں بدمست، اثر رسوخ رکھنے والوں نے معصوم لوگوں کی جانیں لے لیں مگر کچھ عرصے بعد ایسے وکٹری کا نشان دکھاتے ہوئے بری ہوئے جیسے یہ بے شرم قاتل کوئی قلعے فتح کر کے واپس آئے ہیں کیونکہ ہماری پولیس، عدالتیں، سب کوڑیوں کے عوض بکنے والی ہیں۔ تبھی تو پاکستان میں خون اتنا سستا ہے۔ اگر صرف یہ دو ادارے درست ہو جائیں تو پاکستان میں قتل و غارت کا نشان ہی ختم ہو جائے گا۔ کیونکہ جب کسی کو یقین ہوگا کہ قتل کرنے کے بعد میری گردن بھی فوری اُڑا دی جائے گی تو کوئی پاگل بھی اس ظلم سے اپنے ہاتھ گندے نہیں کرے گا دوسری طرف ربّ کی عدالت تو لگنی ہی لگنی ہے۔ وہاں تو کسی مجرم کو رعایت نہیں ملے گی اور عمداً قتل کی معافی تو ہرگز نہیں۔ وہاں تو فرشتے صرف قاتلوں ہی کو گھسیٹ کر آگ کی لپٹوں والی جہنم میں نہیں پھینکیں گے بلکہ ان کے تمام معاونین، حمایتی اور پشت پناہی کرنے والوں کو بھی ان کے ساتھ ہی جہنم کا ایندھن بنائیں گے۔ وہ معاونین اور پشت پناہ چاہے ان قاتلوں کے رشتہ دار ہوں یا پولیس اور عدلیہ کے لوگ۔