6اگست کو یوکرینی فوج نے پہلی بار پیش قدمی کرتے ہوئے روس کے سرحدی علاقے پر حملہ کیا، جسے دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی بار روس پر کسی غیر ملکی فوج کی در اندازی قرار دیا گیا ہے۔ کرسک میں دراندازی کرتے ہوئے کیف حکام نے دعویٰ کیا کہ وہ ایک ہزار مربع کلومیٹر کے علاقے پرقابض ہوگئے ہیں اور روسی فوجیوں کو مارکربھگایاہے۔ یوکرین کی بہترین انٹیلی جنس معلومات کو اس کامیابی کی کلید کہا جاسکتا ہے۔ یوکرین کے پاس موجود خفیہ معلومات درست ثابت ہوئیں ،جن کی روشنی میں روسی فوج کی مدد کے لیے آنے والے ٹینک، توپ خانے اور ڈرون طیاروں کو یوکرین نے تباہ کر دیا ۔ یوکرینی فوج کے سابق ترجمان ولادیسالو سیلزنیوف نے اپنے بیان میں کہا کہ امریکا کے فراہم کردہ ہائی موبیلیٹی آرٹیلری راکٹ سسٹم (ہیمرز) نے یوکرینی فورسز کی پیش قدمی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ امریکا اگر یوکرین کو فراہم کیے گئے مزید جدید ترین ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت دے دیتا تو یوکرینی فورسز کی پیش رفت مزید تیز ہو سکتی تھی۔ امریکا میں قائم غیر سرکاری تھنک ٹینک فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز میں روسی پروگرام کے ڈائریکٹر جان ہارڈی کہتے ہیں کہ اگر امریکا یوکرین کو روس کی سرزمین پر آرمی ٹیکٹیکل میزائل سسٹم استعمال کرنے کی اجازت دے دے تو برطانیہ اور شاید فرانس بھی یوکرین کو فراہم کیے گئے کروز میزائل کے استعمال کے لیے امریکا کی پیروی کریں گے۔اس طرح یوکرینی فوج ای کے ایم 140 آرمی ٹیکٹیکل میزائل سسٹم استعمال کرکے 300 کلومیٹر دور اہداف کو نشانہ بنانے کے قابل ہوسکے گی۔ اس موقع پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یوکرینی فوج کی یہ ابتدائی پیش رفت کیف حکومت کوکامیابی سے ہم کنار کرکے روس کی شکست کا پیش خیمہ ثابت ہوگی؟
کیا یوکرین نے جنگ
کا پانسا پلٹ دیا ہے؟
24فروری 2022ء کو جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ جنگ کتنا طول کھینچے گی۔ حملے کے بعد یوکرین کی جانب سے مزاحمت محض دفاع کی نوعیت تک محدود تھی اور اس دوران شہری و عسکری املاک کا بڑے پیمانے پر نقصان ہوا اور سیکڑوں جانیں گئیں۔ دفاعی اعتبار سے یوکرین کا روس سے کوئی موازنہ نہیں تھا۔ دنیا بھر میں عسکری قوت اور دفاعی ساز و سامان کے اعتبار سے ممالک کی درجہ بندی جاری کرنے والے عالمی ادارے گلوبل فائر پاور اور آئی آئی ایس ایس ملٹری پاور کے اعداد و شمار کے مطابق روس دنیا کی دوسری بڑی فوجی طاقت ہے جب کہ یوکرین کا نمبر بائیسواں تھا۔ روس نہ صرف دنیا کی دوسری بڑی عسکری طاقت ہے بلکہ اس کے پاس بڑی تعداد میں جوہری ہتھیار بھی موجود ہیں ۔ یوکرین 1991 ء تک سوویت یونین کا حصہ تھا اور سوویت یونین سے علاحدگی کے وقت یوکرین کے پاس بڑی تعداد میں جوہری ہتھیار موجود تھے جو کہ تعداد کے لحاظ سے دنیا بھر میں اس وقت تیسرے نمبر پر تھے۔ یہ ہتھیار سوویت یونین کی جانب سے وہاں چھوڑے گئے تھے ،تاہم آزادی کے بعد یوکرین نے خود کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کا بڑا فیصلہ کیا۔ یوکرین کے اس اقدام کے بدلے میں امریکا، برطانیہ اور روس نے 1994 ء میں یوکرین کی حفاظت یقینی بنانے کا معاہدہ کیا جسے ’بڈاپسٹ میمورنڈم‘ کہا جاتا ہے۔ روسی حملے کے بعد امریکا اور اس کے یورپی اتحادی اچھی طرح جان گئے کہ اگر وہ براہ راست جنگ میں کودے تو یہ لامحالہ تیسری عالمی جنگ میں تبدیل ہوجائے گی ،جو بالآخر دنیا کی تباہی پر منتج ہوگی۔ تاہم ان حالات میں یوکرین کو تنہا بھی نہیں چھوڑا جاسکتا تھا ۔ لہٰذا امریکا اور یورپ کی جانب سے یوکرین کو اسلحہ کی مد میں اربوں ڈالر کی امداد فراہم کی گئی۔ روس کی جانب سے اس کی مذمت کی جاتی رہی ،تاہم فوجوں کے براہ راست ملوث نہ ہونے کے باعث کسی محاذ آرائی کا جواز نہیں مل سکا۔ جنگ شروع ہونے کے بعد 6اگست کو پہلا موقع تھا کہ یوکرینی فوج نے اپنے مورچوں سے نکل کر نہ صرف حملے کیے بلکہ حملہ آور دشمن کے علاقے ہتھیانے کا بھی دعویٰ کیا۔ اس دوران یوکرین نے ماسکو پر بھی ڈرون حملے کرکے کریملن کو اپنے عزائم کا واضح پیغام دیا۔ جنگی نقطہ نظر سے دفاعی پوزیشن سے نکل کر یوں حملہ آور کو جواب دینا حالات پلٹ جانے کی نشان دہی کرتا ہے۔
کیا روس کا جواب ایٹمی ہوگا؟
دوسری جانب یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اس حملے کے بعد روس کا ردعمل کیا ہوگا؟ روسی وزارت دفاع کا کہناہے کہ روسی افواج دوبارہ منظم ہوں گی، لیکن یہ کیسے اور کب ہو گا اس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ ماہرین کا کہناہے کہ فریقین کے لیے سردیوں اور پہلی برفباری سے قبل بہترین پوزیشن پر قابض ہونا ضروری ہے۔ نومبر میں سردیوں کا آغاز متوقع ہے، لیکن اس سے پہلے ہی بہت ٹھنڈ پڑ سکتی ہے، جس سے نقل و حرکت میں مشکلات ہو سکتی ہیں۔ کیمپ بنا ہوا ہو تو فوجیوں کے لیے کھانا، سونا اور خود کو گرم رکھنا آسان ہو جاتا ہے۔ اس زمینی جنگ کے جلو میں سب سے تشویش ناک امر روس کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی ہے ۔ تجزیہ کاروںکا کہناہے کہ یوکرین نے روس کے خلاف پیش قدمی کرکے اسے مزید اشتعال دلا دیا ہے۔ گو کہ اس سے قبل روسی صدر پیوٹن بارہا کہہ چکے ہیں کہ ماسکو کبھی ایٹمی حملے میں پہل نہیں کرے گا،تاہم ان کا یہ جملہ بھی بہت معنی خیز ہے کہ روس کسی خطرے کی صورت میں جوہری ہتھیار استعمال کرنے سے ہچکچائے گا بھی نہیں۔ اب اس خطرے کی تعریف شاید اقوام متحدہ کی کسی دستاویز میں رقم کی گئی ہوگی، تاہم صدر پیوٹن کی عادت و اطوار کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ وہ خود اس خطرے کی تعریف بیان کریں گے اور نشاندہی ہونے پر انتہائی فیصلہ لینے سے دریغ نہیں کریں گے۔
فریقین نے جنگ میں کیا کھویا، کیا پایا؟
دونوں ممالک کے درمیان جنگ کا محاذ تقریباً ایک ہزار کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے اور 2022 ء کے موسمِ خزاں کے بعد اس میں کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ دو سال قبل شروع ہونے والی اس جنگ کے کچھ مہینوں بعد ہی یوکرین نے روسی فوج کو اپنے شمالی علاقوں سے اور دارالحکومت کیف سے دور دھکیل دیا تھا۔ اسی برس یوکرین نے اپنے مشرقی اور جنوبی علاقوں کو روسی فوج کے تسلط سے آزاد بھی کروایا تھا۔لیکن اب یوکرینی علاقوں کے اردگرد روسی افواج گھیرا تنگ کیے ہوئے ہیں اور یوکرینی حکام کا کہنا ہے کہ انھیں گولابارود کی قلت کا سامنا ہے۔ حال ہی میں برخاست کیے جانے والے یوکرینی کمانڈر اِن چیف ولیری زالوزنی اور روسی فوج کے حامی بلاگرز بھی اس جنگ کو ایک عسکری دلدل کی تصویر کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ فروری کے وسط میں یوکرین نے اپنی فوج کو مشرقی علاقے اودیوکا سے باہر نکال لیا تھا۔ روسی فوج کی جانب سے اسے اپنی ایک بڑی عسکری کامیابی قرار دیا گیا تھا کیونکہ اودیوکا یہ علاقہ تعزیراتی اہمیت کا حامل ہے جس سے یوکرین میں داخل ہونے کے مزید راستے نکلتے ہیں۔ اس وقت تقریباً 18 صد یوکرینی علاقے روس کے کنٹرول میں ہیں اور اس میں جزیرہ نما کریمیا کا وہ علاقہ بھی شامل ہے جس پر روسی افواج نے 2014 ء میں قبضہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ روس کے زیر تسلط یوکرینی علاقوں میں دونیتسک اور لوہانسک بھی شامل ہیں۔
یوکرین کو امداد، روس کو حامیوں کی تلاش
پچھلے دو برسوں میں یوکرین کے اتحادیوں کی جانب سے اسے بڑی مقدار میں عسکری، مالی اور انسانی امداد مہیا کی گئی ہے۔ کیل انسٹی ٹیوٹ آف ورلڈ اکانومی کے مطابق جنوری 2024 تک یورپی یونین کے اداروں نے یوکرین کو 92 ارب جبکہ امریکانے 73 ارب ڈالر کی امداد مہیا کی ہے۔مغربی ممالک کی جانب سے فراہم کیے گئے ٹینک، ائر ڈیفنس اور آرٹلری سسٹم نے اس جنگ میں یوکرین کی بہت مدد کی ہے۔ لیکن اتحادی ممالک کی جانب سے یوکرین کو ملنے والی امداد میں حالیہ دنوں میں کمی دیکھنے میں آئی ہے، جس کے بعد اس بحث نے جنم لیا ہے کہ آخر کب تک اتحادی ممالک کو یوکرین کی مدد کرنی پڑے گی۔ملک میں اندرونی سیاسی اْتار چڑھاؤ کے درمیان امریکی کانگریس نے یوکرین کے لیے منظور شدہ 60 ارب ڈالر کے امدادی پروگرام کو روک دیا ہے۔ ایسے میں یوکرین کے حامیوں کو یہ خدشہ بھی ہے کہ اگر نومبر میں امریکی صدارتی انتخابات کے نتیجے میں ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ وائٹ ہاوس پہنچ جاتے ہیں تو شاید کیف کے لیے امریکی حمایت ختم ہو جائے گی۔ فروری میں ایک لمبی بحث کے بعد یورپی یونین نے یوکرین کے لیے 54 ارب ڈالر کے امدادی پروگرام کی منظوری دی تھی۔ بحث کے دوران روسی صدر پیوٹن کے اتحادی اور ہنگری کے وزیرِ اعظم وکٹر اوربن نے یوکرین کو ملنے والی امداد کی مخالفت کی تھی۔ اس کے علاوہ یورپی یونین نے مارچ 2024 ء تک یوکرین کو 10 لاکھ آرٹلری گولے دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس مدت کے اختتام پر یوکرین کو صرف 5لاکھ کے قریب ہی گولے مل پائیں گے۔
دوسری طرف اگر روس کے حامی ممالک کی بات کی جائے تو بیلاروس کا شمار ان اتحادی ممالک میں ہوتا ہے جس کے فضائی اور زمینی راستوں کا استعمال روسی افواج یوکرین تک رسائی حاصل کرنے کے لیے کر چکی ہیں۔ امریکااور یورپی یونین کا کہنا ہے کہ ایران بھی روس کو ’شاہد ڈرون‘ مہیا کر رہا ہے۔ لیکن روس کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے جنگ کی شروعات سے قبل ایک چھوٹی تعداد میں ڈرون مہیا کیے گئے تھے۔ یوکرین میں اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے یہ ڈرون انتہائی موثر ثابت ہوئے ہیں کیونکہ اکثر یہ ڈرون ایئر ڈیفنس سسٹم پر نظر نہیں آتے اور اسی وجہ سے اس جنگ میں ڈرون کی مانگ بڑھ گئی ہے۔ مغربی ممالک کو یہ امید تھی ان کی جانب سے لگائی جانے والی پابندیاں شاید روس کو کمزور کریں گی لیکن اس سب کے باوجود بھی روس اپنا تیل فروخت کر پا رہا ہے اور اسے اپنی فوجی انڈسٹری کے لیے ساز و سامان بھی مل رہا ہے۔ چین جنگ میں مصروف فریقین میں سے کسی کی حمایت نہیں کر رہا اور اس تنازع میں واضح طور پر ایک غیر جانب دار سفارتی موقف اپنائے ہوئے ہے۔ چین کی جانب سے نہ تو روسی اقدامات کی مذمت کی جا رہی ہے اور نہ ہی وہ روس کے فوجی آپریشن کی حمایت کر رہا ہے۔ لیکن یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ چین اور بھارت سمیت کئی ممالک روس سے تیل خریدنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یوکرین اور روس دونوں ہی کے سفارت کار افریقااور لاطینی امریکاکے چھوٹے ممالک کے دورے کر رہے ہیں تاکہ ان کی سفارتی حمایت حاصل کی جا سکے۔
جنگ کے دیگر خطوں پر اثرات
ماہرین کی اکثریت کا خیال ہے کہ یہ جنگ 2025 ء سے بھی آگے جائے گی جس میں فریقین کا بھاری جانی نقصان ہوگا اور عسکری ساز و سامان کے لیے یوکرین کا انحصار اپنے اتحادیوں پر مزید بڑھے گا۔ ماہرین میں ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ دنیا کے دیگر حصوں میں بھی یوکرین اور روس کے طرز کے تنازعات شروع ہو سکتے ہیں جیسے کہ مشرق وسطیٰ میں، چین اور تائیوان کے درمیان اور بلقان ممالک میں کیونکہ روس وہاں کشیدگی بڑھانا چاہے گا۔ اس جنگ میں یوکرین عسکری طور پر تھوڑی بہت کامیابی حاصل کرے گا لیکن پھر بھی جنگ کا خاتمہ نہیں ہو پائے گا یا پھر ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اتحادی ممالک یوکرین کی حمایت میں کمی لے آئیں اور اسے مذاکرات کے ذریعے جنگ بندی پر آمادہ کریں۔
لمبی جنگ کی تیاریاں:یورپ کو خطرات لاحق
تھنک ٹینک ’رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹٹیوٹ‘ کا کہنا ہے کہ روس نے اپنی معیشت اور دفاعی صلاحیتوں کو کامیابی سے آگے بڑھایا ہے اور وہ ایک لمبی جنگ کی تیاری کر چکا ہے۔ یورپ ایسے کسی بھی امکان کے لیے تیار نہیں ہے اور ایسے ہی خدشات کا اظہار پولینڈ کے وزیرِ خارجہ بھی کہہ چکے ہیں۔ یورپی ممالک، جرمنی کے وزیر خارجہ اور ایسٹونیا کے جاسوس ادارے کی طرف سے حال ہی میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ اگلی ایک دہائی میں روس کسی ناٹوملک پر حملہ کرسکتا ہے۔ ان خدشات کے اظہار کے بعد ایسا لگتا ہے کہ ناٹو اور یورپی یونین ایسے کسی بھی حملے کی روک تھام کے لیے حکمت عملی مرتب کر رہے ہیں جس میں عسکری اور معاشی تیاریاں بھی شامل ہیں۔