ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
ایک طرف ترقی پسندی اور تبدیلی کی زبردست وکالت کرنے والے اور دوسری طرف اپنی بھرپور مزاحمتی اور رومانوی شاعری کے لیے منفرد مقام رکھنے والے نامور پاکستانی شاعر احمد فراز اردو ادب کی ممتاز ترین شخصیت اور مقبول ترین شاعر تھے۔ اقبال اور فیض کے بعد شاید ہی اردو کے کسی اور شاعر کے حصے میں اتنی مقبولیت اور شہرت آئی ہو جتنی فراز کو حاصل ہوئی۔ احمد فراز 4 جنوری 1931ء کو کوہاٹ (پاکستان) میں پیدا ہوئے ان کا اصل نام سید احمد شاہ علی اور قلمی نام فراز تھا، ان کے والد آغا محمد شاہ برق کوہاٹی بھی اپنے علاقے کے ایک مانے ہوئے شاعر تھے، ایڈورڈ کالج پشاور میں تعلیم کے دوران ریڈیو پاکستان کے لیے فیچر لکھنے شروع کیے جب ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’تنہا تنہا‘‘ شائع ہوا تو وہ بی اے میں تعلیم حاصل کر رہے تھے، تعلیم کی تکمیل کے بعد ریڈیو سے علٰیحدہ ہوگئے اور یونیورسٹی میں لیکچرر کے عہدے پر فائز ہوئے، ملازمت کے دوران ان کا دوسرا مجموعہ ’’دردِآشوب‘‘ شائع ہوا جس کو پاکستان رائٹرز گلڈ کی جانب سے ’’آدم جی ادبی ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔ یونیورسٹی کی ملازمت کے بعد وہ پاکستان نیشنل سینٹر پشاور کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے، پشاور میں پوسٹنگ کے دوران راقم کی اکثر ان سے ملاقات ہوتی رہتی تھی، 1976ء میں انہیں اکادمی ادبیات پاکستان کا پہلا سربراہ مقرر کیا گیا۔ وہ 2006ء تک نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سربراہ بھی رہے، جنرل ضیاالحق کے دور حکومت میں انہیں جلا وطنی اختیار کرنی پڑی اور تین سال تک کا عرصہ برطانیہ، کینیڈا اور دیگر یورپی ممالک میں گزارا، ان کی بہترین انقلابی شاعری جس میں مشہور زمانہ نظم ’’محاصرہ‘‘ بھی شامل ہے اسی دور میں تخلیق ہوئی، ایک عوامی اجتماع میں یہ نظم پڑھنے کی پاداش میں انہیں گرفتار بھی کیا گیا۔
احمد فراز مشرف دور میں وکلا کی تحریک کے زبردست حامی رہے ۔ احمد فراز کو ’’ہلال امتیاز‘‘ سے بھی نوازا گیا تھا تاہم سابق فوجی حکمران جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے انہوں نے بعد ازاں یہ ایوارڈ واپس کر دیا تھا، تب انہوں نے کہا تھا ’’اگر میں اپنے اردگرد پیش آنے والے افسوس ناک واقعات پر خاموش رہا تو میرا ضمیر مجھے معاف نہیں کرے گا، میں کم ازکم یہ ضرور کر سکتا ہوں کہ آمریت کو یہ بتاؤں کہ ان متفکر عوام کی نظروں میں اس کا کیا مقام ہے جن کے بنیادی حقوق سلب کیے جارہے ہیں۔ انہیں جامعہ کراچی نے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری بھی عطا کی تھی۔ فراز نے اردو اور فارسی میں ایم اے کیا، فراز نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ایک دفعہ ان کے والد ان کے بھائی محمود کے لیے کچھ کپڑے لائے اور فراز کے لیے گرم کوٹ جو انہیں پسند نہیں آیا یوں فراز نے اپنی برہمی کا اظہار اور اپنے ادبی کیریر کا آغاز اس شعر سے کیا!
سب کے واسطے لائے ہیں کپڑے سیل سے
لائے ہیں میرے لیے قیدی کا کمبل جیل سے
نویں جماعت میں اپنا پہلا شعر کہنے والے فراز نے روایتی حریفوں بھارت اور پاکستان کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے بھی بہت سے اشعار کہے اور نظمیں لکھیں۔ 1990ء میں ’’اباسین ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا اس کے بعد انہیں ہندوستان میں ’’فراق گورکھپوری‘‘ اور ’ ’ٹاٹا ایوارڈ‘‘ ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔ وہ چاہتے تھے کہ پاکستان اور ہندوستان اپنے بے پناہ وسائل اسلحے کے انبار جمع کرنے پر صرف کرنے کے بجائے اپنے عوام کی فلاح پر خرچ کریں اس حوالے سے اپنے انتقال سے کچھ عرصہ قبل ان کا کہنا تھا ’’دونوں ملکوں کے تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے کلچر سب سے زیادہ موثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ ادھر کے رائٹرز، اُدھر کے رائٹرز، ادھر کے سنگیت کار ، اُدھر کے سنگیت کار،کھیلوں اور دیگر شعبوں کے لوگ بھی یہ چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک میں دوستی بڑھے، امن ہو اور لوگوں کا آنا جانا شروع ہو‘‘۔
اکیڈمی آف اردو لٹریچر کینیڈا میں بھی انہیں 1991ء میں ایوارڈ عطا کیا گیا۔ احمد فراز ایسے شعراء میں شامل تھے جن کی کتابیں خاص وعام میں نہ صرف پسند کی جاتی تھیں بلکہ بڑے پیمانے پر فروخت بھی ہوتی تھیں۔ وہ ایک خوب سیرت انسان کے ساتھ ساتھ خوش بیان شاعر بھی تھے ان کے اندر ایک کھلنڈر اور شریر بچہ ہمیشہ موجود رہتا جسے ہر آن کوئی نہ کوئی شرارت سوجھتی رہتی خصوصاً سنجیدہ، متین اور مصنوعی مسکراہٹ کے عادی لوگوں کو دیکھ کر تو ان کی شرارت کی رگ کچھ زیادہ ہی پھڑ کنے لگتی۔ فقرے بازی اور بذلہ سنجی ان کے مزاج کا حصہ بن چکی تھی۔ بات سے بات کرتے محفل کو زعفران زار بنا دیتے۔
تیرے باتیں ہی سنانے آئے
دوست بھی دل ہی دکھانے آئے
احمد فراز نے متعدد ملکوں کے دورے کیے ان کا کلام علی گڑھ یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے۔ جامعہ ملیہ (ہندوستان) میں ان پر پی ایچ ڈی مقالہ لکھا گیا جس کا موضوع ’’احمد فراز کی غزل‘‘ ہے۔ بہاول پور میں بھی’’احمد فراز فن اور شخصیت‘‘ کے عنوان سے بھی پی ایچ ڈی مقالہ تحریر کیا گیا ان کی شاعری کے انگریزی فرانسیسی، یو گو سلاوی، روسی، جرمن اور پنجابی میں بھی تراجم ہوچکے ہیں۔ کبھی ٹین ایجرز کا شاعر تو کبھی حسن وعشق کا مدح سرا، کہیں انقلاب کا منتظر تو کبھی ماضی کا نوحہ گر، کہیں انا سے اکڑا سر پھرا عاشق تو کہیں سب کچھ بھلا کر دوستی کے لیے پہل کرتے احمد فراز کو دنیا چھوڑے 16 برس بیت گئے ہیں مگر اردو ادب میں وہ زندہ اور محفلوں میں ان کا تذکرہ اب بھی جاری ہے۔ آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہوس زرو مال و جاہ ومنصب، فرقہ بندی اور ذات پات کی لعنتوں کے باعث پوری ملت اسلامیہ انتشار اور پراگندگی کی بھینٹ چڑھ گئی ہے۔ احمد فراز کو یقین تھا کہ اگر آج بھی ملت اسلامیہ ختم المرسلین نبی اکرم ؐ کے نقش قدم پرچلتے تو مصائب وآلام کے بادل چھٹ جائیں گے انہوں نے جس خلوص اور درد مندی کے ساتھ حالات کا تجزیہ کیا وہ فکر پرور اور خیال افروز ہے، اس قسم کی شاعری قاری کے فکر ونظر کو مہمیز کر کے زندگی کے بارے میں مثبت شعور آگہی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی رہے گی۔ احمد فراز 25 اگست 2008ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئے اور اسلام آباد کے مرکزی قبرستان ایچ ایٹ میں آسودہ خاک ہوئے۔