لسی، جماعت اسلامی اور میرا خاندان

365

(1)

جماعت اسلامی پاکستان اپنا 83 واں یوم تاسیس منا رہی ہے۔ راقم کو جماعت اسلامی گڑتی میں ملی، آج سے کوئی ساٹھ ستر سال قبل دادا جان چودھری محمد اکبر گورایہ مرحوم زمینوں پر کام کرنے والے ملازمین کے ساتھ بیٹھے چھا ویلے (ناشتہ) کا کھانا کھا رہے تھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اک مسافر سڑک کنارے لگے نلکے سے پانی پی رہا ہے، دادا جان نے ملازم کو کہا کہ بھاگ کر جائو اس مسافر کو بلا لائو۔ مسافر آیا تو دادا جان نے انہیں لسی پیش کی جو مسافر نے ہاتھوں کا پیالہ بنا کر پی، پوچھنے پر پتا چلا کہ مسافر ہر ماہ شہر سرگودھا سے بذریعہ ٹرین ہنڈیوالی اسٹیشن آتے ہیں وہاں سے پیدل تقریباً آٹھ نو کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے چک 114 شمالی میں چودھری عطاء اللہ صاحب (رکن جماعت) کو ملنے جایا کرتے ہیں۔ اس مسافر نے لسی پلانے کا شکریہ ادا کیا اور جاتے ہوئے مولانا مودودیؒ کی کتاب خطبات یہ کہتے ہوئے دی کہ یہ پڑھیے گا اچھی کتاب ہے اگلی بار آئوں گا تو لے جاؤں گا۔ بس لسی پلانا مہنگا پڑ گیا وہ مسافر ڈاکٹر عبدالرحمن ہاشمی امیر جماعت اسلامی ضلع سرگودھا تھے۔ انہوں نے دادا جان کو ربط رکھ لیا اور جماعت کا رکن بنا کر ہی چھوڑا۔ یوں میری پیدائش سے قبل ہی جماعت اسلامی ہمارے گھر داخل ہو چکی تھی۔ جنرل ایوب کے مارشل لائی دور حکومت میں جماعت اسلامی نے لاہور میں اجتماع رکھا، اس اجتماع کو منتشر کرنے کے لیے حکومتی گماشتوں نے شرکاء اجتماع پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی، جس سے جھنگ سے تعلق رکھنے والے رکن جماعت اللہ بخش شہید ہو گئے۔ میرے دادا جان اور وہ ایک ساتھ پہرہ دے رہے تھے۔ اسی اجتماع میں جب گولیاں چلیں تو سید ابوالاعلی مودودیؒ تقریر کر رہے تھے، شرکاء اجتماع نے انہیں کہا مولانا بیٹھ جائیں، تو سیدی نے مشہور جملہ کہا کہ: ’’اگر آج میں بیٹھ گیا تو پھر کھڑا کون رہے گا‘‘۔ دادا جان اس واقع کو کہانی کی شکل میں اکثر سنایا کرتے رہتے تھے، جس وجہ سے جرأت و شہادت کا درس بھی بچپن ہی میں مل گیا۔ اسی دور میں ہونے والے الیکشن میں جماعت اسلامی نے جنرل ایوب کے مقابلے میں فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔ اس الیکشن میں صرف بی ڈی ممبر ووٹ ڈالتے تھے۔ چک 123 جنوبی کے ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر ایوب گجر صاحب کے والد صاحب کا ووٹ بھی تھا انہوں نے مجھے بتایا کہ صرف اور صرف تمہارے والد چودھری عبدالواحد گورایہ کہ کہنے پر میرے والد صاحب نے اس وقت حکومتی دباؤ کے باوجود ووٹ فاطمہ جناح کو دیا۔

1971ء میں ہونے والے عام انتخابات میں ہمارا گھر جماعت کے امیدوار کا الیکشن آفس تھا، مجھے یاد ہے میرے چچا جان خالد اقبال گورایہ مرحوم ہم سے نعرے لگواتے تھے مودودی کھائے ٹافیاں بھٹو منگے معافیاں۔ 1971 کے الیکشن میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی پاکستان پیپلز پارٹی کا بڑا زور تھا اسی الیکشن میں مشہور ہوا کہ بھٹو کھمبے کو بھی کھڑا کر دے تو ووٹ اس کو دیں گے۔ ہمارے حلقہ قومی اسمبلی کے لیے پیپلز پارٹی کی پہلی ترجیح میرے والد محترم کی تھی لیکن میرے والد صاحب نے کہا کہ ان کے والد یعنی میرے دادا جان جماعت اسلامی کے رکن ہیں لہٰذا میں جماعت اسلامی کے خلاف الیکشن نہیں لڑ سکتا، والد صاحب کے انکار کے بعد یہ ٹکٹ حفیظ اللہ چیمہ صاحب کو ملا جو بعد میں وفاقی وزیر ریلوے بھی بنے۔

اسی طرح 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد (نو ستاروں) نے بھی متفقہ طور پر میرے والد چودھری عبدالواحد گورایہ کو قومی اسمبلی کے ٹکٹ کی پیشکش کی جسے میرے والد صاحب نے مالی اپنے مالی حالات کی وجہ سے قبول کرنے سے معذرت کر لی، ان کی معذرت کے بعد یہ ٹکٹ ڈپٹی ظفر اللہ مرحوم کو دیا گیا۔ اسی الیکشن میں چک نمبر 107 شمالی پولنگ اسٹیشن پر پیپلزپارٹی کے امیدوار وزیر ریلوے چودھری حفیظ اللہ چیمہ نے ایف ایس ایف کے زور پر دھاندلی کی کوشش کی تو میرے والد صاحب جو پولنگ ایجنٹ تھے بڑی رکاوٹ بن گئے جس پر شدید ہنگامہ آرائی ہوئی پولنگ کے عملہ اور پولنگ ایجنٹس کو یرغمال بنا لیا گیا۔ جس پر علاقے کے لوگوں نے پولنگ اسٹیشن کے باہر سے ایف ایس ایف کو یرغمال بنا لیا۔ اس پولنگ اسٹیشن پر ہونے والے ہنگامہ اور چودھری عبدالواحد گورایہ کی جرأت و بہادری کے قصے بی بی سی سے لیکر پاکستان کے طول عرض میں کئی سال تک گونجتے رہے۔ اسی طرح 1977 میں چلنے والی تحریک نظام مصطفی کو بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تمام جلوس جامع مسجد بلاک نمبر 1 سے نکلا کرتے تھے ہم پڑھائی کی غرض سے غوثیہ کراکری اسٹور مسلم بازار کی بالائی منزل پر رہا کرتے تھے۔ آنسو گیس کے نظارے، مظاہرین کی پولیس سے جھڑپیں، گھیراؤ جلائو، ہڑتالیں، والد صاحب اور چچا جان خالد کی گرفتاری، مظاہرین سے بچنے کے لیے ایک ڈی ایس پی کو یاسین ریڈیو سروس کے اندر ٹی وی کے خالی کارٹن کے اندر چھپنے کے مناظر آج بھی یاد ہیں۔ ہفت روزہ ایشیاء، زندگی، تکبیر، ماہنامہ ترجمان القرآن، خواتین کا رسالہ بتول، تفہیم القرآن، دینیات، خطبات و دیگر تحریکی کتب کے علاوہ فہم القرآن کلاس، ہفتہ وار اجتماع، اجتماع اہل خانہ اور جلیبیوں سے ہوش سنبھالتے ہی واسطہ پڑ گیا۔

مجھے وہ دن بھی اچھی طرح یاد ہیں جب مولانا مودودی رحلت فرما گئے تو ان کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے میرے ماموں چودھری نصراللہ گورایہ، والد صاحب اور دادا جان نم آنکھوں کے ساتھ لاہور روانہ ہوئے۔ ایف جی پبلک اسکول میں محترم سر حنیف صدیقی نے مولانا کی پھانسی کی سزا پر ان کے بچوں کا قصہ سنایا جو آج تک یاد ہے۔ گاؤں کی جامع مسجد میں سیرت النبی کا جلسہ تھا، جس میں علامہ عنایت اللہ گجراتی صاحب نے تقریر کی، ملک فتح خان اعوان اور جناب فیض محمد بھٹی مرحوم نے لوگوں میں حلوہ تقسیم کیا، وہ حلوہ بھی آج تک یاد ہے۔ اسکول لائف ہی میں جماعت اسلامی کے پوسٹر لگانے اور ہینڈ بل باٹنے کا شرف بھی حاصل ہوا، میاں طفیل محمد صاحب کی امارت کے دوران جماعت اسلامی نے قرآن مہم چلائی اس مہم کے دو پوسٹر آج بھی یاد ہیں ایک قرآن کی آیت کے ترجمہ پر مشتمل تھا جب کہ دوسرے پر حدیث مبارکہ لکھی ہوئی۔

چودھری سلیم صاحب اور چودھری سلطان احمد ججہ مرحوم کے الیکشن کے پوسٹر بھی تا حال یاد ہیں، چچا جان خالد، ماموں چودھری افتخار سندھو، ملک علی احمد گھیبہ، محترم فیض محمد بھٹی کے ساتھ مل کر خوب الیکشن مہمات چلایا کرتے تھے۔ گاؤں گاؤں جا کر ٹانگے اور سائیکل پر الیکشن کی اناؤنسمنٹ کرتے، جلسے جلوسوں میں شریک ہوتے۔ مجھے یاد ہے کہ میرے چچا جان الیکشن والے دن سہ پہر کو چادر تان کر سو جایا کرتے تھے دوست پوچھتے کہ اب تو رزلٹ آنا ہے آپ سو گئے ہیں وہ کہتے مجھے پتا ہے کیا رزلٹ آنا ہے لہٰذا آپ لوگ بھی سو جائیں۔ اسی طرح مجھے یاد ہے کہ والد محترم مجھے کسان بورڈ کے ایک کنونشن میں ساتھ لاہور بھی لے گئے، پی ٹی وی خبرنامہ اور تمام صف اوّل کے اخبارات میں والد محترم کے ہمراہ میری تصاویر بھی شائع ہوئیں۔ اکابرین جماعت اسلامی مولانا فتح محمد، علامہ عنایت اللہ گجراتی و دیگر رہنما اکثر ہمارے گھر آیا کرتے تھے۔

دادا جان نے بڑی حکمت سے بہت سارا لٹریچر کچھ اس طرح پڑھوا دیا کے بیٹا یہ صفحہ پڑھ کے سنانا مجھے صحیح نظر نہیں آ رہا۔ دادا جان کی ظعیف العمری میں ان کے زمیندار جماعتی دوستوں کی خدمت چچا جان سیف اللہ گورایہ نے اپنے ذمے لی، نوجوان جماعتی احباب کی چچا جان خالد اور ذمے داران جماعت کی خدمت والد محترم کے حصہ میں آئی۔
(جاری ہے)