معاصر جریدہ روزنامہ دنیا 12 اگست کی خبر کے مطابق بجلی کے بڑھتے بلوں کی وجہ سے متعدد سانحات نے کئی زندگیوں کے چراغ گل کر دیے اور ہر درد دل رکھنے والے کو مضطرب کر دیا، خبر کے مطابق ؛ ’’قصور کی تحصیل کوٹ رادھا کشن کے رہائشی 38 سالہ منیر کا بجلی بل 10 ہزار روپے آگیا جو پہلے ہی غربت کے ہاتھوں پریشان تھا، گھر میں فاقہ کشی کی صورتحال تھی، بجلی کا بل آنے پر بیوی سے جھگڑا ہو گیا تو منیر اپنے چھوٹے بیٹے کو لے کر کوٹ رادھا کشن اسٹیشن پر چلا گیا جہاں اس وقت کراچی سے سیالکوٹ جانے والی علامہ اقبال ٹرین کھڑی تھی، ٹرین چلنے لگی تو منیر نے بچے کو گود سے اُتار کر اپنا سر پٹڑی پر رکھ دیا جس سے اس کا سر دھڑ سے الگ ہوگیا۔ پڑوسیوں کے مطابق منیر انتہائی غربت میں مبتلا تھا، اوپر سے دس ہزار بجلی کا بل آ گیا۔ منیر کیانی اسٹریٹ نئی آبادی کا رہائشی تھا، اس کی لاش گھر پہنچی تو کہرام مچ گیا۔ واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں بجلی کے بھاری بل آنے پر گجرانوالہ کے علاقے میں معمر خاتون نے نہر میں کود کر زندگی ختم کرلی تھی جبکہ بل ادائیگی معاملے پر بڑے نے چھوٹے بھائی کو قتل کردیا تھا۔ ٹیکسلا میں بجلی کا بل ادانہ ہونے پر ایک شخص نے زندگی ختم کرلی تھی جبکہ دو روز قبل میلسی کے علاقے چشتیاں میں سبزی فروش ساجد نے 20 ہزار بجلی کا بل ادانہ کر سکنے پر زہریلی گولیاں نگل کر خودکشی کرلی تھی‘‘۔
یہ صرف بجلی بلوں سے تنگ آئے پریشان عوام کا المیہ نہیں بلکہ مہنگائی، بے روزگاری اور بے شمار مسائل میں گھری قوم کی اکثریت کا نوحہ ہے۔ بیماری، خوشی و غم کے مواقع پر اخراجات اور بچوں کی تعلیم اور ان کی فیسوں کا مسئلہ علٰیحدہ ہے۔ ان سب مسائل سے نابلد حکمران ہم پر مسلط ہیں، پوری قوم میں اگر کوئی ایک پارٹی اور لیڈر جس نے جماعتی سیاست سے بالا تر ہو کر اگر ان مسائل کا ادراک کیا ہے تو وہ جماعت اسلامی اور حافظ نعیم الرحمن ہیں جنہوں نے برسوں سے جاری ظلم و زیادتی کو مزید برداشت نہ کرنے کے لیے عوام کو اکٹھا کر کے پر امن جدو جہد اور مزاحمت کا راستہ اختیار کیا ہے کہ حکمرانوں کا وتیرہ ہے کہ وہ سیدھے طریقے سے کوئی بات سننے کے روادار ہی نہیں ہوتے۔
جب سے جماعت اسلامی نے راولپنڈی میں تاریخی دھرنا دیا اور اس کے نتیجے میں حکومت سے ایک معاہدہ کیا وہ دن ہے کہ کچھ لوگ بشمول چند صحافی اور تجزیہ نگار جماعت اسلامی کو ملنے والی عوامی پذیرائی کو ہضم نہیں کر پا رہے ہیں اور اس کاوش میں مصروف ہیں کہ وہ جماعت اسلامی اور حافظ نعیم الرحمن کی اس کاوش کو سیاسی مقصد کے حصول سے وابستہ یا کم از کم بے وقت ثابت کر دیں، بلال الرشید کا معاصر جریدہ روزنامہ جنگ میں 21 اگست کا کالم ’’جماعت اسلامی اور بجلی‘‘ کا اختتامی اقتباس پڑھ لیجیے۔
’’حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں جماعت ِ اسلامی نے جتنی بھی ریاضت کی، مریم نواز کی سربراہی میں لیگی قیادت جماعت ِ اسلامی کو اس کا کوئی سیاسی فائدہ پہنچنے نہیں دے گی۔ یہ بات درست نہیں کہ حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں جماعت ِ اسلامی اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم کا کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ بات البتہ درست ہے کہ عمران خان کا سحر توڑنے اور اس کا متبادل پیش کرنے کے لیے جماعت ِ اسلامی کو ایک فری ہینڈ دیا گیا ہے۔ جماعت ِ اسلامی نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ یہ سب شارٹ ٹرم چالاکیاں ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حافظ نعیم یہ موقف اختیار کرتے کہ جماعت ِ اسلامی پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت کو تنہا کر کے مصلوب کردینے کی اجازت نہیں دے گی۔ انہیں اپنی سابق اتحادی جماعت کے لیے آواز بلند کرنا چاہیے تھی۔ اس سے خود جماعت ِ اسلامی کو لانگ ٹرم فائدہ پہنچتا کہ اس کا فطری اتحاد تحریک ِ انصاف ہی سے بنتا ہے۔ جماعتیوں کو مگر یہ بات کون سمجھائے۔ حافظ نعیم تو پھر بھی غنیمت ہیں۔ سراج الحق کھلے عام آواز لگایا کرتے کہ تحریک ِ انصاف کے کارکن جماعت ِ اسلامی میں آجائیں‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ حکومت سے معاہدہ کے روز اول سے ہی حافظ نعیم ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت معاہدہ پر عمل درآمد کرانے کے لیے حکمرانوں کا تعاقب کر رہے ہیں، عوامی جلسوں کے ذریعہ پر امن جدوجہد کو آگے بڑھا رہے ہیں اور اسی دباؤ کو مزید بڑھانے کے لیے 28 اگست کو تاجروں کے ساتھ ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا گیا ہے۔ بلال الرشید کے مطابق جماعت اسلامی کو فری ہینڈ دیا گیا جو ان کے خیال میں عمران خان کے سحر کو توڑنے کے لیے دیا گیا ہے، ان کے الفاظ میں یہ شارٹ ٹرم چالاکیاں ہیں۔ ہم تو یہی کہیں گے کہ تحریر انسان کی شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہے، صحافت میں الفاظ کا چناؤ اور اخلاقی اقدار بھی کوئی معنی رکھتی ہیں، ویسے تو ہر شخص اپنے ظرف کے مطابق اظہار رائے کے لیے آزاد ہے۔ بجائے اس کے کہ حکومتی فسطائیت تمام تر رکاوٹوں اور ہتھکنڈوں کے مقابلے میں جماعت اسلامی کے کارکنان اور عوام کی جدوجہد، جرأت استقامت اور مزاحمت کی تعریف کی جاتی، انہوں نے اسے کتنی آسانی سے فری ہینڈ سے تعبیر کیا۔
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
لانگ ٹرم فائدہ کے لیے وہ جماعت اسلامی کو تحریک انصاف کے لیے آواز اٹھانے کا مشورہ دیتے نظر آتے ہیں، جہاں تک تحریک انصاف کا ساتھ دینے کی بات ہے تو وہ حافظ نعیم اور جماعت اسلامی کو تو مورد الزام ٹھیرا رہے ہیں جب کہ پی ٹی آئی کے اپنے قائدین زبانی جمع خرچ کرنے سے زیادہ اپنے قائد کے لیے کچھ کرتے نظر نہیں آتے، اس کی تصدیق تو 22 اگست کے اسلام آباد کے جلسہ کی منسوخی پر علیمہ خان کے حالیہ بیان سے ہو رہی ہے۔ زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ حافظ نعیم الرحمن نے سب سے پہلے پی ٹی آئی سے الیکشن کے موقع پر ہونے والی ناانصافی پر نہ صرف آواز اٹھائی بلکہ اپنی سیٹ فارم 45 کی بنیاد پر تحریک انصاف کے امیدوار کے حق میں چھوڑ دی۔ بہتر ہو گا کہ بلال الرشید یہ معلوم کریں کہ ملک کی سب سے بڑی جماعت ہونے کے دعوے دار کیوں اپنی پارٹی اور قائد کے لیے سڑکوں پر آنے اور قربانی دینے سے گریزاں ہیں؟، جہاں تک اتحادی سیاست کی بات ہے تو جماعت اسلامی عوام کے ساتھ متحد ہے جس کا ثبوت راولپنڈی کا دھرنا اور پورے ملک میں بڑے بڑے جلسے ہیں۔ اس عوامی اتحاد میں شامل ہونے کے لیے صرف پی ٹی آئی نہیں بلکہ ہر پارٹی ورکر کو دعوت ہے کہ وہ بجلی فی یونٹ قیمت میں کمی اور مہنگائی کے خلاف ’’حق دو عوام کو بدلو اس نظام کو‘‘ تحریک میں حافظ نعیم اور جماعت اسلامی کا ساتھ دیں۔
کالم اتمام پر تھا کہ مورخہ 23 اگست کے معاصر جریدہ روزنامہ دنیا ہی کی خبر نے ایک مرتبہ پھر مضطرب کر دیا- خبر کے مطابق سرگودھا میں غربت اور گھریلو حالات سے دلبرداشتہ شخص نے گھریلو سامان بیچ کر گھر کا کرایا اور بجلی کا بل ادا کیا، پریشانی اور بدحالی ختم نہ ہونے پر زہریلی گولیاں کھا کر زندگی کا خاتمہ کر لیا، ایک دوسرے واقعہ میں تین بچوں کے باپ نے گھریلو حالات سے دلبرداشتہ ہو کر گلے میں پھندا لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ اتنے سارے اندوہناک اور دلخراش واقعات کے بعد بھی کیا بلال الرشید، عوام کو بھاری بجلی بلوں اور مہنگائی کے عفریت سے نجات دلانے کے لیے حافظ نعیم اور جماعت اسلامی کی کاوشوں کو شارٹ ٹرم چالاکیوں سے تشبیہ دیں گے۔ پس اے دیدۂ بینا والو! عبرت حاصل کرو۔ (سورہ الحشر)
عام آدمی کی پریشانیوں اور مسائل کے حل کے لیے عظیم جدوجہد کے نتیجے میں حافظ نعیم نے ملکی سیاست کا رخ عوام سے جڑے مسائل کی طرف موڑ دیا ہے اور آج بچہ بچہ آئی پی پیز کے پی پی پی، ن لیگ اور پی ٹی آئی کے ادوار میں کیے گئے معاہدے اور حکمرانوں کی ملی بھگت سے آگاہ ہے، حافظ نعیم کی اس مزاحمتی تحریک کے نتیجے میں وزیراعظم اپنے متعدد بیانات میں بجلی کی قیمتوں کی کمی کی بابت بیان دے چکے ہیں، حکومت پنجاب اس حوالے سے عوام کو دو ماہ کے لیے 14 روپے فی یونٹ کی رعایت دے رہی ہے، حکومت سندھ اور حکومت پنجاب پہلی مرتبہ عوامی مسائل کے حوالے سے ایک دوسرے کو نیچا جتانے کے لیے بیان بازی اور جھڑپوں میں مصروف ہیں، جبکہ حافظ نعیم تو پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ کریڈٹ جو بھی لینا چاہے لے لے، بس عوام کو سہولت ملنی چاہیے۔