جاپان کے وزرائے اعظم: تاریخ، استعفے اور پالیسیوں پر اثرات

288

…آخری حصہ…

گزشتہ مضمون میں، ہم نے جاپان کی سیاسی تاریخ میں وزرائے اعظم کے استعفوں اور ان کے اثرات پر روشنی ڈالی تھی اور آج ہم تبدیلی کی ایک نئی لہر اور قیادت کی دوڑ کا ایک جائزہ پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس موضوع پر گفتگو سے قبل ضروری ہے کہ جاپان کے موجودہ سیاسی ماحول پر بھی نظر دوڑائی جائے، جہاں ایک بار پھر لیڈر شپ کی تبدیلی کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں۔

فومیو کیشیدا کے استعفے کے اعلان کے بعد جاپان کی حکمران جماعت، لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی)، میں نئے صدر کے انتخاب کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ ایسے میں سابق وزیر ماحولیات شنجیرو کوئزومی کی صورت میں ایک نئی قیادت ابھرتی نظر آرہی ہے۔ شنجیرو کوئزومی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ایل ڈی پی کے صدارتی انتخابات میں حصہ لیں گے، جو جاپانی سیاست میں ایک اہم پیش رفت سمجھی جارہی ہے۔ 43 سالہ کوئزومی کی اس دوڑ میں شمولیت سے ایل ڈی پی کی صفوں میں ایک نوجوان اور مقبول سیاست دان کے انتخاب کی گونج سنائی دے رہی ہے۔

شنجیرو کوئزومی، جو سابق وزیر اعظم جونی چیرو کوئزومی کے صاحب زادے ہیں، کا نام عوام میں خاصی مقبولیت رکھتا ہے، جو ان کے حق میں مستقبل کے وزیر اعظم ہونے کی ایک مضبوط دلیل ہے، جاپان جیسے ملک میں عوام کی حمایت کسی بھی سیاسی رہنما کی کامیابی کے لیے ایک اہم عنصر ہے۔ واضح رہے کہ کوئزومی کو اپنے والد کی میراث اور سیاسی تجربے کا فائدہ بھی حاصل ہے، جسے وہ اپنے حق میں استعمال کر سکتے ہیں۔

شنجیرو کوئزومی کی شخصیت اور پالیسی سوچ بھی ان کی اہلیت کے تصور کو تقویت بخشتی ہے۔ وہ ایک جدید سوچ رکھنے والے سیاست دان ہیں، ماضی میں وہ وزیر ماحولیات رہے اور اپنے دور میں انہوں نے ماحولیات سے متعلق کئی اہم اقدامات بھی کیے۔ ان کی اس پالیسی پر مبنی سوچ اور جدیدیت پسند رویہ جاپان کی نوجوان نسل کے لیے ایک پرکشش پہلو ہو سکتا ہے۔ تجزیہ نگاروں کی رائے میں ایل ڈی پی کے لیے ایک ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو نہ صرف پارٹی کی روایات کو برقرار رکھے بلکہ موجودہ چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی حکمت عملی بھی اپنائے۔

شنجیرو کوئزومی کی کم عمری بھی ایک ایسا پہلو ہے جوان کے حق میں جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ جاپان کی سیاست میں نوجوان قیادت کا فقدان رہا ہے، اور ایل ڈی پی کے لیے یہ ایک موقع ہو سکتا ہے کہ وہ نوجوان قیادت کو سامنے لا کر پارٹی کو ایک نئے دور میں داخل کریں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس سے نہ صرف پارٹی کی اندرونی ساخت کو نئی توانائی ملے گی بلکہ اس عوامی تاثر کو بھی بہتر بنانے میں مدد ملے گی کہ ایل ڈی پی نئی سوچ اور جدیدیت کو اپنانے کے لیے تیار ہے۔

شنجیرو کوئزومی کا سیاسی تجربہ اگرچہ محدود ہے، لیکن انہوں نے اپنی مدت وزارت کے دوران جو اقدامات کیے، وہ ان کی سیاسی بصیرت اور قیادت کی صلاحیتوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ بطور وزیر ماحولیات، انہوں نے موسمیاتی تبدیلی جیسے اہم مسئلے پر توجہ دی، جو عالمی سطح پر جاپان کی ساکھ کو مزید مستحکم کر سکتا ہے اور ان کے اس تجربے کو پارٹی کے حق میں استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔

کوئزومی کے قریبی ساتھیوں میں سابق وزیر اعظم یوشی ہیدے سوگا بھی شامل ہیں، جو کسی سیاسی دھڑے میں شمولیت کے بغیر نظر آتے ہیں، اور اس بنا پر سوگا کے قریبی غیر دھڑے والے قانون ساز اراکین بھی کوئزومی کی حمایت میں آگے آ سکتے ہیں۔ ایل ڈی پی میں موجود دیگر دھڑے، جو پرانی سیاست کے علمبردار ہیں، شاید کوئزومی کی حمایت سے گریز کریں، لیکن غیر دھڑے والے ارکان اور نئے سوچ کے حامل سیاست دانوں کا ان کے ساتھ کھڑے ہونے کا امکان ہے۔

علاوہ ازیں، اس سلسلے میں کوئزومی کی عوامی حمایت بھی ان کی متوقع کامیابی کے لیے ایک مضبوط دلیل سمجھی جاتی ہے۔ ایک عوامی سروے کے مطابق، کوئزومی ایل ڈی پی کے صدارتی انتخابات میں دوسرے نمبر پر ہیں، جبکہ شیگیرْو ایشیبا سب سے زیادہ پسندیدہ امیدوار ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ یہ عوامی حمایت کوئزومی کی کامیابی کے لیے اہم ثابت ہو سکتی ہے، کیونکہ جاپان میں سیاسی قیادت کا انتخاب اکثر عوامی دباؤ اور حمایت کے تحت ہی ہوتا ہے۔

آئیں اب ایک نظر ان چیلنجز پر بھی ڈال لیں جو ایک نوجوان قیادت کے لیے متوقع ہو سکتی ہے۔ اگر کوئزومی ایل ڈی پی کے صدر منتخب ہو جاتے ہیں، تو ان کے سامنے کئی ایسے چیلنجز ہوں گے جو سخت محنت کے متقاضی ہیں، ان چیلنجز میں پارٹی کی اندرونی صفوں میں اتحاد برقرار رکھنا اور ایل ڈی پی پر عوامی اعتماد کو بحال کرنا شامل ہیں۔ تاہم، ایک جوان قیادت، گہری اور متوازن پالیسی، سوچ، اور عوامی حمایت ان سے بطور ایک مضبوط امیدوار کئی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کوئزومی جیسے نوجوان اور پْرجوش سیاست دان کے قیادت میں آنے کے بعد جاپان کے سیاست دان اس تبدیلی کی لہر میں کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ جاپان میں نئی قیادت خواہ کسی کی بھی ہو ہم پاکستان سے جاپان کے لیے نیک خواہشات کے ساتھ دونوں ممالک کی دوستی کے فروغ کے لیے دعاگو ہیں۔