دھرنا ختم نہیں موخر ہوا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر کہتے ہیں کہ اگر حکومت نے معاہدے پر عمل درآمد نہیں کیا تو دھرنا پھر شروع ہوگا۔ اس معاہدے پر ہم پہرہ دیں گے۔ یہ عوام کی جیت ہے۔ جماعت اسلامی کے کارکن اپنے لیے یا اپنے رہنمائوں کے لیے نہیں عوام کے لیے چودہ پندرہ دن دھرنے میں بیٹھے آسمان کے نیچے سخت زمین پر دھوپ گرمی بارش پر سختی برداشت کی۔ اور پھر بالآخر اپنے مطالبات کے حق میں معاہدہ کروالیا۔ حکومت اگر کفایت اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہو تو عوام کی ریلیف کے لیے بہت کچھ کرسکتی ہے۔ جاگیرداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا مطالبہ بھی پرانا ہے لیکن حکومت میں جاگیرداروں کا حصہ ہے لہٰذا وہ نہیں چاہتے کہ ان کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے، جبکہ عام آدمی اپنے استعمال کے صابن اور بچوں کو پلانے کے لیے دودھ پر بھی ٹیکس ادا کرتا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی سیاسی جماعت نے جاگیرداروں کے گرد گھیرا لگایا ہے۔ حافظ نعیم الرحمن وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ چھوٹے کسانوں کی بات نہیں کررہے وہ تو محروم اور مظلوم طبقہ ہے۔ ہم زمینی اصلاحات کے ذریعے ان میں زمینوں کی تقسیم چاہتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ صنعت کار جاگیردار ایکسپورٹر یہ سب معیشت کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن جب حکومت کے لوگ رشوت چاہتے ہیں اپنا حصہ چاہتے ہیں تو حکومتی ادارے خود ہی انہیں غلط راستے دکھاتے ہیں۔
ایف بی آر کرپشن اور بے ایمانی کا سراغ لگانے کا ادارہ ہے لیکن خود اس کے اندر اربوں کی کرپشن ہورہی ہے جن کے معاملات کو دیکھنے والا کوئی نہیں۔ حافظ نعیم الرحمن کہتے ہیں کہ ایف بی آر میں ایک سال میں تیرہ سو ارب کی کرپشن ہوئی۔ وزیراعظم شہباز شریف بھی اب منہ کھول کر ایف بی آر اور پاور سیکٹر کا نام لے رہے ہیں، صاف صاف آئی پی پیز کا نام اس لیے نہیں لے رہے کہ اس میں ان کے اپنے ملوث ہیں کہتے ہیں کہ اگر ان دونوں یعنی ایف بی آر اور پاور سیکٹر سے کرپشن ختم نہ ہوئی تو خدانخواستہ ملک کے نائو ڈوب جائے گی۔ کوئی انہیں بتائے کہ وہ وزیراعظم ہیں ملک کے اداروں سے کرپشن ختم کرنا اور ان کا محاسبہ کرنا ان کی ذمے داری ہے۔ ان کے بیان عوام کی سمجھ میں تو نہیں آتے، کہتے ہیں کہ بجلی کے معاملے میں سیاست عوامی مینڈیٹ کی توہین ہے، یعنی جس کو مینڈیٹ ملا ہے وہ ہی جماعت بجلی کے بحران پر بات کرسکتی ہے اگر دوسری کوئی جماعت کرے گی تو مینڈیٹ والی جماعتوں کی توہین ہوگی، لیکن عوام تو ان کی بجلی کے شراروں سے پریشان بلکہ خوفزدہ ہے وہ تو عوام کی کمر پر مہنگائی کا مزید بوجھ لادنے پر کمر بستہ ہیں۔ پھر کوئی تو عوام کی ٹوٹتی کمر کا احساس کرے گا۔ بقول وزیراعظم انہیں عوام کی مشکلات کا ادراک ہے لیکن حیرت ہے کہ کاوشیں عوام کے لیے بجلی کی قیمتیں بڑھانے اور مہنگائی کے درے لگانے کی ہیں۔ اب حافظ نعیم الرحمن کے لیے کھڑے ہیں بلکہ ڈٹے ہیں، یہ ان کی کامیابی ہے کہ پنجاب میں بجلی کی فی یونٹ قیمت میں چودہ روپے کمی کی گئی۔ جس کا اعلان نواز شریف نے بہ نفس نفیس کیا، اب شہباز شریف کو پورے ملک کے لیے بجلی کی قیمت میں کمی کا اعلان کرنا چاہیے۔
پچھلے سال چیئرمین بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے خود انکشاف کیا تھا کہ ایف بی آر میں سالانہ 500 سے 600 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے اور ادارے کے لیے یہ ممکن نہیں کہ اپنے 25 ہزار ملازمین کے اثاثے چیک کرسکیں۔ حیرت ہے کہ ایف بی آر اپنے 25 ہزار ملازمین کے اثاثے چیک نہیں کرسکتے پھر وہ 25 کروڑ لوگوں کے اثاثے کیسے چیک کرسکتے ہیں؟ اور اس ایک سال میں مزید کتنی کرپشن بڑھی ہوگی؟ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے۔ اور اس تناظر میں تو اور اہم ہے کہ جب وزیراعظم شہباز شریف ایف بی آر اور پاور سیکٹر کی کرپشن ختم نہ ہونے پر ملک کی نیّا ڈوبنے کی بدخبر سنا رہے ہیں۔ لہٰذا انہیں حافظ نعیم کی آواز پر کان دھرنا ہوگا کہ وہ اپنے عوامی مطالبات پورے کرنے کے لیے راستہ بھی دکھارہے ہیں۔