کراچی ( رپورٹ \محمد علی فاروق ) امریکی اسٹیبلشمنٹ ٹرمپ کیخلاف ہے ‘کملاہیرس الیکشن جیت سکتی ہیں‘امریکی ڈیموگرافی میں 60 فیصد سفید فام اور 40 فیصد متفرق نسل کے افراد ہیں‘ جوبائیڈن اسرائیل کی مالی وفوجی امداد بند کرکے کملاہیرس کی انتخابی پوزیشن کومزیدبہتر بناسکتے ہیں‘ ڈیپ اسٹیٹ ہی ریاست کے فیصلے کرتی ہے‘ٹرمپ مسلمانوںکے خلاف ہیں، قاتلانہ حملے سے انکی مقبولیت کاگراف بڑھا۔ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر فرید احمد پراچہ‘ سینئر تجزیہ کار اور بین الاقوامی امور کے ماہر دفتر خارجہ کے سابق ترجمان عبدالباسط، سابق سفیر، سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر جمیل احمد خان اور بین الاقوامی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا امریکا میں کملاہیرس ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دے سکیں گی؟‘‘ فرید احمد پراچہ نے کہا کہ امریکا کا نظام انتخاب مسلسل عمل سے گزرتا ہے اس میں اتار چڑھائو ہوتا رہتا ہے‘ ٹرمپ پر حملہ ہوا اس کے ساتھ ان سے ہمدردی کی لہر وابستہ ہوگئی لیکن کملا ہیرس کے بطور صدارتی امیدوار آنے کے بعد صورت حال میں کچھ تبدیلی واقع ہوئی ہے، صدارتی انتخابات میںجس چیز نے فیصلہ کن رول ادا کرنا ہے‘ فلسطین کی صورتحال ہے ‘ڈونلڈ ٹرمپ اس وقت کسی عملی اقدامات کی پوزیشن میں نہیں ہیں لیکن ان کی پالیسی گفتگو اور ماضی مسلمانوں اور فلسطینیوں کے خلاف ہے‘ اسی طرح جو بائیڈن نے جو رویہ اختیار کیا ہے ، اس سے بڑا شدید اضطراب اور اشتعال موجود ہے جوبائیڈن فوری طور پر غیر مشروط جنگ بند کرائیں اور قتل عام انسانیت کے خلاف اسرائیل کے جرائم ہیں‘ ان کی مذمت کریں‘ اسرائیل کی مالی و دفاعی امداد روکی جائے تو پھر کسی حد تک یہ کہا جاسکتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا مقابلہ ہوسکے گا، مسلمانوں کے لیے تو دونوں ہی ایک جیسے ہیں لیکن بہرحال جو بائیڈن گروپ کے پاس اس وقت ایک چانس ہے کہ وہ اپنی انتخابی صورت حال بہتر کر سکتا ہے ‘ اگر انہوں نے یہ موقع اگلے ایک ہفتے تک استعمال نہ کیا تو ان کے پاس کسی قسم کا کوئی چانس انتخاب جیتنے کا باقی نہیں بچے گا۔ عبدالباسط نے کہا کہ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا صحیح صورت حال اس وقت واضح ہوگی جب امریکا کے صدارتی الیکشن میں نامزد دونوں رہنمائوںمیں بحث و مباحثہ ہوگا‘ وہ امریکی ریاستوں میں الیکشن کی سر گرمیاں شروع کریں گے‘ ان کے معاملات اس وقت واضح ہوجائیں گے اور اس وقت گرائونڈ پر دونوں جماعتوں کی صورت حال تقریباً برابر ہے ، بہرحال پہلے مباحثے کے بعد ہی کچھ اندازہ لگا یا جاسکتا ہے۔ جمیل احمد خان نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا تو وہ حملہ آور کی گولی سے بال بال بچ گئے اس دوران ان کا گراف بہت آگے بڑھ گیا تھا ‘خاص طور پر رائٹ ونگ کے افراد جن کی آبادی تارکین وطن سے11 فیصد زیادہ ہے‘ خاص طور پر ڈیموکریٹس کے آخری 2 روز میں ہونے والے کنونشن میں کملا ہیرس کی نامزدگی کے بعد ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا ہے‘ کملا ہیرس نے کنونشن کے دوران جب تقریر کی تو ان کی حمایت میں دیگر ڈیموکریٹس رہنمائوں ہیلری کلنٹن ، مشیل اوباما، سابق صدر بارک اوباما سمیت دیگر نے بھی تقاریر کر کے کملا ہیرس کو اپنی حمایت کی یقین دہانی کرائی۔ کملا ہیرس نے اپنی تقریر میں ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کر تے ہوئے کہا کہ وہ اپنے امیر ترین دوستوں کو زیادہ فائدہ پہنچاتے ہیں‘ سوشل سیکورٹی سسٹم کو انہوں نے ختم کر دیا تھا۔ کملا ہیرس کی انتخابی مہم کی وجہ سے ان کا امریکا کے الیکشن میں گراف بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے‘ ایسا لگتا ہے کہ چوٹی کی ٹکر اب سامنے نظر آرہی ہے‘ کملا ہیرس سیاہ فام و دیگر نسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ ساتھ سفید فام عوام خاص طور پر خواتین کے ووٹ اور تارکین وطن کے ووٹ حاصل کر نے میں کافی حد تک کامیاب ہو گئی ہیں لہٰذا ابتدائی طور پر جب جوبائیڈن کی جانب سے کملاہیرس کے نام کا اعلان کیا گیا تھا تو اس وقت یہ تصور بھی نہیں کیا جا رہا تھا کہ کملا ہیرس کی مقبولیت کا گراف اتنی تیزی سے بلند ہوگا ، کملا ہیرس نے بہت کم وقت میں لوگوں کی حمایت حاصل کر لی ہے جو اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب راغب تھے، مگر فلسطین کے معاملے میں ڈیموکریٹ پارٹی اور ریپبلکن پارٹی کی پالیسی میں کوئی فرق نہیں ہے‘ اب یہ محسوس ہوتا ہے کہ کملا ہیرس کے جیتنے کے چانس بتدریج بڑھتے جارہے ہیں لہٰذا اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی کہ امریکا کی تاریخ میں یہ صدارتی امیدوار کی نامزدگی حاصل کرنے والی پہلی سیاہ فام اور جنوبی ایشیائی خاتون ہوں‘ اگر وہ جیت جاتی ہیں تو وہ ملک میں ایک نئی تاریخ رقم کریں گی‘ جنہیں پہلی افریقی اور ایشیائی نسل کی خاتون ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوگا۔ مونس احمر نے کہا کہ جو بائیڈن نے ایک ماہ قبل ڈونلڈ ٹرمپ سے بحث و مباحثہ کیا تھا اس کے بعد ان کی مقبولیت کا گراف گر گیا تھا‘ شکاگو میں جب کملا ہیرس کو متعارف کرایا گیا تو انہوں نے فوری طور پر ڈیموکریٹ پارٹی کے بڑے بڑے رہنمائوں بارک اوباما، ہیلری کلنٹن، جو بائیڈن، میسی پلوسی سمیت دیگر کی حمایت حاصل کر کے اپنی پارٹی پوزیشن کو مضبوط کر لیا‘ وہ صدارتی امید وار کا ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں‘ دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کی وجہ سے ان کو ہمدردی کا ووٹ حاصلہوگا کیونکہ ان خلاف بے شمار مقدمات بدعنوانی، جنسی ہراسمنٹ ، اقربا پروری، اختیارات کے ناجائز استعمال کے حوالے سے عدالتوں میں زیر التوا ہیں، ان کی عمر بھی 77سال سے زاید ہے جبکہ کملا ہیرس ان کے مقابلے میں 59 سال کی ینگ لیڈی ہیں‘ کملا ہیرس کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ ایشیا اور افریقا کی نمائندگی کرتی ہیں کیونکہ ا ن کی والدہ شیامالاگوپان انڈین نسل اور والد ڈونلڈ جے ہیرس جمیکائی سیاہ فارم امریکی تھے ،آج سے100 سال قبل امریکا میں 90 فیصد سفید فام آباد تھے مگر اب صورت حال یہ ہے کہ 60 فیصد سفید فام رہ گئے ہیں اور 40 فیصد متفرق نسلوں سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں‘ اگر کملا ہیرس سفید فام عوام سے ہٹ کر بھی ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں اور ان کے پیچھے طاقت کا توازن قائم رکھنے والی قوتیں، سیاہ فام طبقہ اور ہر رنگ ونسل کی خواتین کھڑی ہوجائیں ، تو ہوسکتا ہے کہ وہ ٹرمپ کو شکست دے دیں گی ‘ دراصل ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے یہ مشہور ہے کہ وہ اپنی زبان قابو میں نہیں رکھتے ، جس کی وجہ سے ان کی شہرت میں کمی آئی ہے‘ اس کے علاوہ سب سے بڑی وجہ امریکا کی اسٹیبلشمنٹ ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ہے ، جب وہ صدر تھے تو انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے لیے کہا تھا کہ وہ میری حمایت نہیں کرتی جبکہ امریکا کے ڈیپ اسٹیٹ نظریے کے بارے میں بھی ان کا خیال تھا کہ وہ میرے خلاف ہے‘ ڈیپ اسٹیٹ ہی ریاست کے فیصلے کرتی ہے ، ڈونلڈ ٹرمپ نے کھلم کھلا ریاستی فیصلوںکی اور نیٹو کی مخالفت کی تھی ،ٹرمپ نے 2020ء کے انتخابات میں بائیڈن سے شکست کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا‘ ڈونلڈ ٹرمپ کچھ بھی کریں ان کا حمایت یافتہ طبقہ ان کے ساتھ ہے‘ سفید فام امریکی مرد اور یوتھ ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کرتے ہیں‘ وہ سمجھتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کو بچائیں گے‘ ٹرمپ غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف موثر قدم اٹھائیں گے‘ امریکا کے صدارتی الیکشن میں 2 ڈھائی ماہ باقی ہیں‘ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں واضح ہوجائے گا کہ امریکا کی خاموش اکثریت کیا فیصلہ کرتی ہے‘ کملا ہیرس امریکا کے خاموش ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے میں اگر کامیاب ہوجاتی ہیں تو وہ ٹرمپ کو شکست دینے میں بھی کامیاب ہوجائیںگی۔