کل ہمارے ایک شناسا بڑے ملال کی کیفیت میں کہہ رہے تھے کہ افسوس مجھے دنیا نے سمجھا نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ صرف ایک شخص کا فقرہ نہیں، ایسے فقرے ہر دوسرے شخص کی زبان پر ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ’’عدم تفہیم‘‘ ایک عام اور سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ لیکن اس مسئلے کی حقیقت کیا ہے؟
دنیا ایک بہت بڑا دائرہ ہے لیکن عام طور پر لوگوں کی دنیا چند افراد تک محدود ہوتی ہے اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے ساتھ انسان زندگی بسر کرتا ہے۔ یعنی والدین، شوہر، بیوی، بچے، احباب اور دفتر کے کچھ ساتھی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو دُنیا کی شکایت دراصل قریبی تعلقات کی شکایت ہے اس لیے یہ شکایت زیادہ سنگین ہے۔ تاہم عام طور پر یہ سامنے کی حقیقت شکایت کرنے والوں کے شعور کا حصہ نہیں ہوتی ہے۔ اس کی ایک وجہ ہے۔
دُنیا کی شکایت ایک ’’بڑی‘‘ شکایت ہو یا نہ ہو لیکن شکایت میں دُنیا کے لفظ کے استعمال سے یہ شکایت از خود بڑی بن جاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی یہ کہے کہ مجھے فلاں شخص یا فلاں فلاں لوگوں نے نہیں سمجھا تو یہ ایک چھوٹی سی شکایت نظر آئے گی۔ یہاں ایک دلچسپ پہلو کا ذکر ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے کہ دنیا کی شکایت حقیقی ہو لیکن دنیا کے لفظ کے استعمال سے بہر حال اس میں ایک تصنع در آتا ہے، اس کے برعکس ہو سکتا ہے کہ دُنیا کی شکایت مصنوعی ہو لیکن چند افراد تک محدود رکھنے سے اس میں ایک حقیقی پن پیدا ہو جاتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اکثر لوگوں کا مسئلہ تصنع یا حقیقی پن نہیں بلکہ چھوٹا یا بڑا پن ہے، اور وہ اس لیے ہے کہ بڑا پن ظاہری طور پر زیادہ حقیقی نظر آتا ہے اور چھوٹا پن غیر حقیقی محسوس ہوتا ہے۔
اگر چہ شکایت کرنے والے اپنی بات کی وضاحت نہیں کرتے لیکن اس کے باوجود ان کے فقرے سے ان کا احساس عظمت قطعی طور پر عیاں ہو جاتا ہے۔ وہ کہہ تو یہ رہے ہوتے ہیں کہ دنیا نے ہمیں سمجھا نہیں لیکن دراصل ان کے فقرے کا ایک مفہوم یہ بھی ہوتا ہے کہ دنیا اتنی ’’سطحی‘‘ اور ہم اتنے ’’گہرے‘‘ ہیں کہ وہ ہمیں سمجھ ہی نہیں سکتی تھی۔ یعنی یہ منہ اور مسور کی دال، لیکن دُنیا کو مورد الزام ٹھیرانے کی خواہش اتنی گہری اور شدید ہوتی ہے کہ یہ بات سطح پر نہیں آپاتی۔
بلا شبہ عدم تفہیم ایک سنگین مسئلہ ہے لیکن دُنیا کی شکایت کرنے والوں سے بہر حال یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ عدم تفہیم کی ساری ذمے داری دُنیا کے سر پر ہے یا اس ذمے داری کا کوئی حصہ ان کے کھاتے میں بھی درج ہے؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ عدم تفہیم بہر حال ہر صورت میں یکطرفہ معاملہ نہیں ہوتی۔ بسا اوقات سامع پوری طرح تیار اور مستعد ہوتا ہے لیکن مخاطب کی بات ہی واضح نہیں ہوتی۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں عدم تفہیم کی ذمے داری سامع پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ کہی گئی بات بالکل واضح ہوتی ہے لیکن تجربے کا اشتراک موجود نہیں ہوتا۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ ذہنی سطحیں بہت مختلف ہو جاتی ہیں، لیکن عام طور پر دُنیا کی شکایت طور دنیا کی کرنے والے ان اور ان جیسی اور اہم باتوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ وہ بس ایک شکایت وضع کر لیتے ہیں پھر وہ خود ہی اسے ’’پیٹنٹ‘‘ کر لیتے ہیں اور اس کے بعد وہ شکایت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک ہی شکل میں بروئے کار آتی چلی جاتی ہے۔
دیکھا جائے تو دنیا کی شکایت میں دُنیا کی مذمت شامل ہے، لیکن یہ صورت حال کا محض ایک پہلو ہے۔ دیکھا جائے تو اس شکایت میں دُنیا ایک معیار اور ایک پیمانے کی حیثیت حاصل کیے ہوئے نظر آتی ہے۔ دُنیا نے ہمیں سمجھا نہیں۔ یعنی دُنیا اتنی اہم چیز ہے کہ اسے ہمیں ضرور سمجھنا چاہیے تھا لیکن اتنی اہم چیز نے ہمیں نہیں سمجھا تو بہت بڑا نقصان ہو گیا۔ تاہم کس کا نقصان؟ یہ سوال بہت اہم ہے۔ تاہم دُنیا کی شکایت سے یہ امر عیاں ہے کہ یہاں اپنے نقصان کا احساس ہی مخاطب ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو صورت یہ بنتی ہے کہ شکایت خود کی ہے اور احساس اپنے نقصان کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت میں دنیا کی شکایت کا مفہوم کیا ہے؟ کیا یہ صورت حال خود پرستی اور خود پسندی کا اظہار نہیں؟ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو دنیا نے اگر شکایت کرنے والے کو نہیں سمجھا تو اچھا کیا۔ آخر ایک خود پسند شخص کو سمجھ کر اسے کیا مل جاتا ہے؟
اس حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیں تفہیم ایک دو طرفہ معاملہ ہے لیکن مشاہدہ اور تجربہ بناتا ہے کہ اس کی جڑیں فرد کی شخصیت میں پیوست ہوتی ہیں چناں چہ دُنیا کی شکایت کرنے والوں سے پوچھا جا سکتا ہے کہ دُنیا نے تو خیر آپ کو نہیں سمجھا لیکن کیا خود آپ نے اپنے آپ کو سمجھ لیا ہے؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ اگر کسی نے خود کو نہیں سمجھا تو وہ کسی اور سے عدم تفہیم کی شکایت کیسے کر سکتا ہے، لیکن یہ بات کوئی تسلیم نہیں کرتا کہ خود اس نے اپنے آپ کو نہیں سمجھا۔ سب یہی سمجھتے ہیں کہ وہ خود کو سمجھتے ہیں اور یہ بات عمومی مفہوم میں غلط بھی نہیں ہوتی لیکن ہوتا یہ ہے کہ انسان ہوتا کچھ ہے اور وہ خود کو ظاہر کچھ اور کرتا ہے۔ دُنیا کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جو کچھ ظاہر ہوا ہے اس کو دیکھتی ہے لیکن انسان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ دُنیا ظاہر کو بھی سمجھے اور اُسے بھی جو کہ ظاہر نہیں ہوا۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ انسان سمجھتا ہے کہ وہ جو کچھ ہے ظاہر بھی وہی ہوا ہے، لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس تناظر میں بھی دنیا کی شکایت، شکایت بے جاہی رہ جاتی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ عدم تفہیم کی شکایت ہر صورت اور ہر حال میں بے جا ہوتی ہو۔ اس شکایت کے جائز ہونے کا امکان موجود ہے، تاہم بیشتر صورتوں میں اس شکایت کے بے جا ہونے سے انکار ممکن نہیں، بلا شبہ شکایت کرنے والے شکایت کرتے ہیں اور شکایت کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں اور شاید ایسا اس لیے بھی ہوتا ہے کہ انسان ’’سنگل ٹریک‘‘ ہو جاتا ہے۔ ایسا نہ ہو تو شکایت کرنے والوں میں سے کچھ یقینا اس حقیقت کے ادراک سے محروم نہ رہیں کہ اگر دنیا نے انہیں نہیں سمجھا تو یہ ان کے حق میں اچھا ہی ہوا۔ دُنیا انہیں واقعتا سمجھ لیتی تو شاید وہ کہیں کے نہ رہتے۔ کیا خبر پھر وہ شکایت کرنے اور اسے انجوائے کرنے کے بھی لائق نہ رہ جاتے۔