مقبوضہ جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات

409

ہندوستان مقبوضہ کشمیر میں بندوق کی نوک پر نام نہاد انتخابات کا ڈراما رچا کر دنیا کو گمراہ نہیںکرسکتا، نریندر مودی نے پوری دنیا میں ہندوستان کے نام نہاد جموری اور سیکولر چہرے کو بے نقاب کردیا ہے، اب دنیا ہندوستان کے کسی مکرو فریب پر یقین رکھتی، حکمران حویلی کے مسائل حل کریں، حویلی کی پسماندگی کی ذمے داری حکمرانوں پر ہے، جماعت اسلامی اپنی بساط کے مطابق عوام کی خدمت کررہی ہے عوام جماعت اسلامی پر اعتماد کریں جماعت اسلامی اس خطے کی تقدیر بدل دے گی، کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنا جماعت اسلامی کے دستور کے حصہ ہے ہماری ترجیجات میں عوام کی فلاح کے ساتھ ساتھ کشمیر کی آزادی ہے، ہندوستان غیر ریاستی باشندوںکو ووٹ کا حق دے کر اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی سنگین خلاف ورزیوں کو مرتکب ہورہا ہے۔

بھارتی الیکشن کمیشن نے بالآخر مقبوضہ جموں وکشمیر میں اسمبلی انتخابات کرانے کا اعلان کر ہی دیا ہے، جو بھارت نواز جماعتوں کے لیے خدا خدا کرکے کفر ٹوٹا ہے کے مصداق ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں آخری مرتبہ 2014 میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہوئے تھے۔ جس کے بعد نریندر مودی کی جماعت بی جے پی نے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی PDP کے ساتھ مل کر اتحادی حکومت قائم کی تھی۔ جسے ایجنڈا آف الائنس کا نام دیا گیا۔ حالانکہ پی ڈی پی سربراہ مفتی سعید نے پوری الیکشن مہم بی جے پی کے خلاف اس نعرے پر چلائی تھی کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے انہیں کامیاب کرانا ضروری ہے اور اس نعرے نے انہیں بڑی حد تک سیٹوں کی عددی برتری بھی دلائی۔ ظاہری بات ہے کہ انہیں سہارے کی ضرورت تھی، جس کے لیے قرعہ فعال بی جے پی ہی کے لیے نکلا۔ وزارت اعلیٰ کا ہما مفتی سعید کے سر رکھا گیا، گوکہ وہ پہلے بھی کانگریس کے ساتھ ڈھائی سالہ وزارت اعلیٰ کی میوزیکل چیئر کے مزے لوٹ چکا تھا۔

دسمبر 2015 میں سرینگر میں ایک عوامی جلسے میں مفتی سعید کو اس وقت ہزیمت اور سبکی کا سامنا کرنا پڑا تھا جب نریندر مودی نے اپنی تقریر میں کہا کہ انہیں مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں کسی کی مشاورت کی ضرورت نہیں ہے۔ مفتی سعید نے اسی جلسے میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت یا مذاکرات کی وکالت کی تھی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ بھاجپا کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے مفتی سعید نے تاریخی غلطی کی جس کا خمیازہ ریاستی درجے کی تنزلی اور جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے چھن جانے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ مفتی سعید، اپنے سیاسی تجربے کے باوجود نریندر مودی اور بھاجپا کے عزائم کو سمجھنے میں ناکام رہے۔

جنوری 2016 میں مفتی سعید کئی دنوں تک بیمار رہنے کے بعد چل بسے، تو محبوبہ مفتی نے وزارت اعلیٰ کی بھاگ ڈور سنبھالی، چونکہ پی ڈی پی اور بی جے پی کا شروع دن سے غیر فطری اتحاد تھا لہٰذا نہ ان کے خیالات ایک دوسرے کے ساتھ میل کھاتے تھے اور نہ ہی نظریات۔ لاوا اندر خانے پک چکا تھا اور 19 جون 2018 میں بی جے پی کی جانب سے جموں وکشمیر حکومت سے الگ ہونے کے اعلان کے ساتھ ہی محبوبہ مفتی اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئیں، جس کے بعد مقبوضہ جموں کشمیر میں گورنر راج کا نفاذ عمل میں لایا گیا اور پھر دسمبر 2018 میں صدارتی راج نافذ کیا گیا۔ محبوبہ مفتی ریاست کی ناکام ترین وزیر اعلیٰ ثابت ہوئیں کیونکہ ان کے دور اقتدار میں 08 جولائی 2016 میں افسانوی شہرت کے حامل اور تحریک مزاحمت کی علامت سمجھے جانے والے برہان وانی کا ماورائے عدالت قتل کیا گیا، جس نے پورے مقبوضہ جموں وکشمیر میں ایک نئے انتفاضہ کو جنم دیا، جس میں سیکڑوں کشمیری نوجوان بھارتی گولیوں کا نشانہ بنے اور پھر محبوبہ مفتی نے اس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کے ساتھ سرینگر میں ایک پریس کانفرنس میں رعونت سے بھرپور انداز میں کہا تھا کہ شہید کشمیری بچے بھارتی فوجی کیمپوں پر کیا دودھ اور ٹافیاں لینے گئے تھے۔ جس پر کشمیری صحافیوں نے سخت ردعمل کا مظاہرہ کرکے ان کی چائے پینے سے انکار کیا تھا۔

مقبوضہ جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات پورے دس برسوں کے بعد منعقد ہونے جارہے ہیں۔ ان دس برسوں میں کشمیری عوام کے ساتھ پتھر کے زمانے کا سلوک روا رکھا گیا۔ بھارت سے تھوک کے حساب سے اعلیٰ افسران کو یہاں لاکر کشمیری عوام پر مسلط کیا گیا۔ تمام اہم عہدوں پر بھارتی افسران تعینات کیے گئے اور کشمیری ملازمین بالعموم اور افسران بالخصوص کھڈے لائن لگائے گئے۔ یہاں تک کہ 05 اگست 2019 میں مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق دو اہم شقوں 370 اور 35 اے کو بیک جنبش قلم ایک صدارتی فرمان کے ذریعے ختم کرکے اس سے دو حصوں جموں و کشمیر اور لداخ پر مشتمل مرکز کے زیر انتظام یونین ٹیریٹری بنادیا گیا۔ گوکہ 2019 سے پہلے بھی مقبوضہ جموں وکشمیر کا انتظام و انصرام بھارتی حکومت کے مقرر کردہ گورنر کے ذریعے چلایا جارہا ہے لیکن 5 اگست 2019 میں غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کے بعد جموں و کشمیر اور لداخ میں لیفٹیننٹ گورنروں کے تقرر عمل میں لائے گئے۔ 05 اگست 2019 کے بعد یہاں نت نئے قوانین نافذ کیے گئے، جن میں غیر ریاستی باشندوں یعنی ہندوئوں کو مقبوضہ جموں وکشمیر کا ڈومیسائل کا حقدار ٹھیرایا گیا اور آج کے دن تک بیالیس لاکھ ڈومیسائل کا اجرا کیا جاچکا ہے۔ بدنام زمانہ قانون UAPA کی آڑ میں کشمیری عوام کو اپنے ہی وطن میں اجنبی اور تمام اختیارات سے محروم کیا گیا ہے۔ درجنوں کشمیری مسلمان ملازمین کو ان کی نوکریوں سے برخاست کیا گیا۔ جائداد واملاک اور رہائشی مکانوں پر ہر دوسرے دن قبضہ کرنا معمول بن چکا ہے۔ اہل کشمیر کی سانسوں پر پہرے بٹھائے گئے۔ لیفٹیننٹ گورنر کو اختیارات کے نام پر ریاست کا مختار کل بنادیا گیا ہے۔ جس سے مستقبل کا خاکہ اس بات کی بذات خود وضاحت کرتا ہے کہ مودی کے عزائم کس قدر بھیانک اور خوفناک ہیں۔