امریکا اور چین کے درمیان کشیدگی کا گراف ایک بار پھر بلند ہو رہا ہے۔ امریکا نے کہا ہے کہ اُسے چین، روس اور شمالی کوریا کی طرف سے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا خطرہ لاحق ہے۔
ایسے میں لازم تھا کہ ایٹمی پالیسی بدلی جاتی، نئی ترجیحات کا تعین کیا جاتا۔ بائیڈن انتظامیہ نے سالِ رواں کے اوائل میں ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق پالیسی بدل ڈالی اور اب اس کا اعلان کیا گیا ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان 27 تا 29 اگست چین کا دورہ کریں گے۔ شدید کشیدگی تعلقات کے پس منظر میں یہ دورہ بہت اہم ہے کیونکہ امریکا اور چین کے درمیان تجارتی تنازع بھی پنپ رہا ہے اور یوکرین جنگ کے حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی قیادت چاہتی ہے کہ چین اور روس کے درمیان تعلقات زیادہ پروان نہ چڑھیں۔
امریکی میڈیا میں رپورٹس شائع ہوتی رہی ہیں کہ چین اور روس مل کر ایشیا کو ایک بڑے بلاک میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شمالی کوریا، ترکیہ، ایران اور پاکستان کو ساتھ ملا کر ایک ایسا بلاک بنایا جارہا ہے جو اکسیویں صدی کی باقی مدت کے دوران امریکا اور یورپ کی جگہ دنیا کی قیادت سنبھالے۔
امریکا اور یورپ کے قائدین کے لیے یہ صورتِ حال انتہائی پریشان کن ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ معاملات کو کنٹرول کرنے کے لیے آگے بڑھ کر اقدامات کیے جائیں۔
امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون کے دورے کو مغربی میڈیا میں بہت اہم قرار دیا جارہا ہے۔ تبصروں میں ماہرین نے کہا ہے کہ امریکا کو بہت احتیاط کے ساتھ، سنبھل سنبھل کر چلنا ہے۔ کوئی معمولی سی غلطی کسی بڑی خرابی کا سبب بن سکتی ہے۔
امریکا اور چین کے اعلیٰ حکام یوکرین جنگ کے حوالے سے بھی گفت و شنید کی تیاری کر رہے ہیں تاکہ اس قضیے کو پورے یورپ پر محیط ہونے سے روکنے کے لیے روس سے جامع مذاکرات کی راہ ہموار کی جاسکے۔
مغربی میڈیا جیک سلیون کے چین کے دورے کو غیر معمولی اہمیت دے رہا ہے۔
سیاسی مبصرین اور تجزی کاروں کا کہنا ہے کہ اس مرحلے پر امریکا اور چین کے درمیان اعلیٰ سطح کے رابطوں کا برقرار رہنا لازم ہے کیونکہ ایک طرف مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کا خطرہ موجود ہے اور دوسری طرف یوکرین میں ایک بڑی جنگ چل رہی ہے۔ اگر یہ دونوں قضیے جلد نہ سُلجھے تو عالمی امن مکمل طور پر داؤ پر لگ جائے گا۔