مبارک ثانی کیس میں عدالت عظمیٰ کا مبارک فیصلہ

345

الحمد للہ ! ملت اسلامیہ پاکستان کے اتحاد و اتفاق اور وحدت و یکجہتی کا حوصلہ افزا پوری دنیا نے دیکھا جس کے سامنے حکومت اور ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے بھی سر تسلیم خم کیا، عدالت عظمیٰ نے مبارک ثانی فیصلے سے متعلق وفاقی حکومت کی درخواست منظور کرتے ہوئے فیصلے کے متنازع پیرا گراف نمبر سات، بیالیس اور انچاس سی حذف کر دیئے، جس کے بعد قوم میں پایا جانے شدید اضطراب اور اشتعال، اطمینان میں بدل گیا ہے، عدالت عظمی کے اس فیصلہ کے بعد جمعۃ المبارک کے روز تمام دینی حلقوں نے ’یوم تشکر‘ منایا ہے۔ اس معاملہ میں نمایاں ترین پہلو یہی تھا کہ رسول کریم حضرت محمدؐ کی ختم نبوت کے تحفظ کے مسئلہ پر ملک میں موجود تمام مسالک اور مکاتب فکر نے مکمل یکسوئی، اتحاد اور یگانگت کا مظاہرہ کیا۔ جمعرات کے روز عدالت عظمیٰ میں اس معاملہ کی سماعت کے موقع پر جمعیت العلماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کے نمائندہ کی حیثیت سے ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، سید جواد نقوی، ڈاکٹر عطاء الرحمن، پروفیسر ساجد میر کے نمائندے حافظ احسان کھوکھر ایڈووکیٹ، مفتی منیب الرحمان کے نمائندے ، ابو الخیر محمد زبیر، مفتی شیر محمد، لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ، حامد رضا اور دیگر علماء کرام، دانشور اور ماہرین قانون بھی اس نازک مسئلہ پر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی معاونت کے لیے موجود تھے جبکہ مفتی تقی عثمانی نے ترکیہ سے ویڈیو لنک پر عدالت میں دلائل دیئے۔ درخواست کی سماعت منصف اعلیٰ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے کی اور اپنے سابقہ فیصلوں کو اَنا یا ضد کا مسئلہ بنانے کے بجائے کھلے دل سے اپنی غلطی تسلیم کرنے اور اصلاح کی پیشکش کی۔ منصف اعلیٰ نے استفسار کیا کہ کون کون سے علماء کرام عدالت میں موجود ہیں؟ جس پر مولانا فضل الرحمان عدالت کے سامنے پیش ہو گئے۔ منصف اعلیٰ نے کہا کہ ہم یہ تعین کرنا چاہتے ہیں کہ ہماری کون کون رہنمائی کرے گا۔ چیف جسٹس نے مولانا فضل الرحمان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے میں کوئی غلطی یا اعتراض ہے تو ہمیں بتائیں، ہم دیگر اکابرین کو بھی سنیں گے۔ عدالت نے لطیف کھوسہ اور حامد رضا کو بات کرنے سے روک دیا۔ منصف اعلیٰ نے کہا کہ کسی وکیل کو نہیں سنیں گے۔ جس پر لطیف کھوسہ بولے کہ میں بطور رکن پارلیمنٹ اور قائمہ کمیٹی ممبر پیش ہو رہا ہوں، صاحبزادہ حامد رضا کے نکتہ اعتراض پر ہی سارا معاملہ شروع ہوا تھا۔ منصف اعلیٰ نے صاحبزادہ حامد رضا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ دیگر علماء سے بڑے ہیں؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ درس نظامی کا فاضل ہوں، کسی سے بڑے ہونے یا برابری کا دعویٰ نہیں کرتا۔ منصف اعلیٰ نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں اور عدالتی کارروائی چلنے دیں۔ صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ ہمارا موقف ہے کہ عدالت کا پورا فیصلہ ہی غلط ہے، ہم چاہتے ہیں پورا عدالتی فیصلہ ہی واپس لیا جائے۔مفتی تقی عثمانی نے ویڈیو لنک پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے نظر ثانی کیس میں جو رائے دی اس کو شاید نظر انداز کیا گیا، نظر ثانی درخواستوں کے فیصلے میں کچھ قرآنی آیات کا حوالہ دیا گیا، اچھی بات ہے کہ منصف اعلیٰ پاکستان فیصلوں میں آیات کا حوالہ دیتے ہیں۔ منصف اعلیٰ نے کہا کہ اگر فیصلے میں کوئی غلطی ہے تو عدالت کی رہنمائی کی جائے، اگر کوئی بات سمجھ نہیں آئی تو ہم سوال کریں گے، میں کوئی غلطی سے بالاتر نہیں ہوں۔ مفتی تقی عثمانی نے فیصلے کے دوپیرا گراف حذف کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ پیرا گراف نمبر 7 اور 42 کو خذف کیا جائے۔ مفتی تقی عثمانی نے مقدمہ سے دفعات ختم کرنے کے حکم میں بھی ترمیم کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ عدالت دفعات کا اطلاق ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ ٹرائل کورٹ پر چھوڑے۔ مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ اصلاح کھلے دل کے ساتھ کرنی چاہئے، عدالت نے لکھا کہ قادیانی مبارک ثانی نجی تعلیمی ادارے میں معلم تھا، گویا عدالت نے تسلیم کر لیا کہ قادیانی ادارے بنا سکتے ہیں، عدالت نے کہا قادیانی بند کمرے میں تبلیغ کر سکتے ہیں، قانون کے مطابق قادیانیوں کو تبلیغ کی کسی صورت اجازت نہیں، عدالت نے سیکشن 298C کو مد نظر نہیں رکھا۔ جس پر منصف اعلیٰ نے کہا کہ اگر ہم وضاحت کر دیں تو کیا یہ کافی ہو گا؟ جس پر مفتی تقی عثمانی بولے عدالت وضاحت کے بجائے فیصلے کے متعلقہ حصے حذف کرے۔ منصف اعلیٰ نے کہا کہ میں قرآن مجید، احادیث اور فقہ کا حوالہ دیتا ہوں مگر شاید میری کم علمی ہے، میرا موقف ہے کہ ہم امریکہ برطانیہ کی مثالیں دیتے ہیں اپنی کیوں نہ دیں، کوئی میٹرک کا امتحان نہ دے تو فیل ہونے کا خطرہ بھی نہیں ہوتا، اب ہمیں آگے کی طرف دیکھنا چاہیے۔ مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ میں آپ کی خدمت میں یہ سب باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ منصف اعلیٰ نے کہا کہ آپ شرمندہ نہ کریں ہمارے بزرگ اور بڑے ہیں آپ کا بہت احترام ہے۔ منصف اعلیٰ نے مفتی تقی عثمانی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے مطابق دو پیرا گراف ختم ہونے چاہئیں، مزید کچھ کہنا چاہیں تو بتا دیں۔ مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ قادیانی اقلیت میں ہیں لیکن خود کو غیر مسلم تسلیم نہیں کرتے، قادیانیوں کو پارلیمنٹ میں بھی نشستیں دی گئیں۔جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ 2002ء کے بعد قانون تبدیل ہو گیا اور قادیانیوں کی ایک نشست تھی جو ختم کر دی گئی، اب صرف اقلیت کی 10 مخصوص نشستیں رکھی گئی ہیں۔ مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ قادیانی مسلم کے بجائے اقلیت کے طور پر رجسٹر ہو سکتے ہیں، اقلیت خود کو مان لیں تو پھر ان کو اقلیتوں کی نشستیں بھی مل سکتی ہیں، اس کے بعد منصف اعلیٰ نے مولانا فضل الرحمان کو روسٹرم پر بلا لیا۔ مولانا فضل الرحمان نے مفتی تقی عثمانی کی حمایت کی۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمن کی نمائندگی کرتے ہوئے ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے عدالت میں رائے دی کہ ہم بھی فیصلے میں ترمیم چاہتے ہیں، ختم نبوت کے معاملہ میں تمام مسلمان متفق ہیں، سید جواد نقوی کا موقف تھا کہ عدالتی فیصلے کے مختلف پیرے باہم متصادم ہیں، منصف اعلیٰ نے غلطی تسلیم کر کے شجاعت کا مظاہرہ کیا، حکومت اور عدالت جب اپنا حقیقی کردار ادا نہ کریں تو عوام میں اشتعال پھیلتا ہے، جج کو دبائو میں فیصلے نہیں کرنے چاہیں۔ جس پر منصف اعلیٰ نے کہا کہ جس دن میں نے دبائو میں آ کر فیصلے کئے اسی دن گھر چلا جائوں گا۔ مولانا عطاء الرحمان نے کہا کہ عدالت عظمیٰ اکثر فیصلوں میں قرآنی آیات و احادیث کا حوالہ دیتی ہے، منصف اعلیٰ کی جانب سے اسلامی اصولوں کا حوالہ دینا قابل تحسین ہے، کچھ جگہوں پر قرآنی آیات کے حوالے سے ابہام بھی پیدا ہو جاتا ہے، اسلامی تعلیمات میں ابہام آ جائے تو دور کرنا لازمی ہے۔ اس دوران مفتی منیب الرحمان کے نمائندے نے بھی دیگر علماء کی رائے سے اتفاق کیا۔ سماعت مکمل ہونے پر عدالت عظمیٰ نے نظر ثانی اپیل پر علماء کرام کی تجاویز قبول کرتے ہوئے فیصلے کی درستگی سے متعلق وفاقی حکومت کی درخواست منظور کرلی اور چھ فروری اور 24 جولائی کے اپنے فیصلوں سے معترضہ پیرے حذف کردیئے اور یہ بھی فیصلہ دیا کہ مبارک ثانی نظر ثانی کیس کے فیصلے کے حذف شدہ پیروں کو عدالتی نظیر کے طور پر بھی پیش نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت نے پیرا نمبر سات، بیالیس اور انچاس سی حذف کر کے ٹرائل کورٹ کو یہ حکم بھی دیا کہ مقدمہ میں عائد دفعات کا قانون کے مطابق جائزہ لیا جائے۔ علماء کرام نے عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کو حق کی فتح قرار دیتے ہوئے کہا کہ عقیدہ ختم نبوت کا پرچم ایک بار پھر سر بلند ہوا ہے… اس معاملہ میں یہ امر بھی نہایت خوش آئند ہے کہ علماء کرام، حکومت، حزب اختلاف، قومی اسمبلی اور اسلامی نظریاتی کونسل سمیت دیگر متعلقہ اداروں میں عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ پر مکمل اتفاق رائے پایا گیا جس پر قوم یقینا مبارک باد کی مستحق ہے…!!!