دین میں دعا کی بڑی اہمیت ہے اور یہ ایک ایسی عبادت ہے جس سے اعراض اللہ رب العالمین کو سخت ناپسند ہے۔ قرآن و احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی عبادت شرائط و آداب سے خالی نہیں ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہم عبادات کے نتائج و ثمرات تو حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے شرائط و آداب کی تکمیل کی طرف دھیان نہیں دیتے۔
قرآن و احادیث میں دعا کے جو شرائط و آداب مذکور ہیں وہ تین قسموں میں بانٹے جاسکتے ہیں۔ کچھ شرائط و آداب دعا سے پہلے ہیں، کچھ اس کے اندر ہیں، اور کچھ اس کے بعد ہیں۔ اگر ہم مثال کے طور پر نماز کو اپنے سامنے رکھ لیں تو ان شرائط و آداب کو سمجھنا آسان ہوجائے گا کیونکہ نماز کے لیے بھی کچھ شرائط و آداب اس سے پہلے ہیں، کچھ اس کے اندر ہیں اور کچھ اس کے بعد ہیں۔ دعا سے پہلے کی دو شرطیں بڑی اہم ہیں:
دین کو اللہ کے لیے خالص کر لینا
یہ ایک ایسی شرط ہے جو اللہ رب العزت کی تمام عبادتوں میں لگی ہوئی ہے۔ کوئی عبادت اس شرط کو پورا کیے بغیر قبول نہیں ہوتی۔ دین کو اللہ کے لیے خالص کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی بندگی کے ساتھ کسی دوسرے کی بندگی کو شریک نہ کیا جائے۔ پرستش صرف اسی کی اور پیروی و اطاعت صرف اسی کے احکام و اوامر کی کی جائے۔ اس کے حکم کے علی الرغم کسی کی اطاعت نہ کی جائے اور جو کچھ کیا جائے صرف اسی کی رضا حاصل کرنے اور اسی کے حکم کی تعمیل کی نیت سے کیا جائے۔ کوئی عمل محض دکھاوے کے لیے نہ کیا جائے۔ ہر عبادت اور ہر اطاعت شرک اور ریا کی آمیزش سے پاک ہو۔ قرآن میں متعدد مقامات پر صراحت کے ساتھ یہ حکم دیا گیا ہے کہ دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس کی عبادت کی جائے اور اس سے دعا مانگی جائے۔ اگر کوئی شخص اس شرط کی خلاف ورزی کرکے یہ توقع کرے کہ اس کی عبادت اور اس کی دعا بارگاہ الٰہی میں قبول کی جائے گی تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ عبادت کے بارے میں فرمایا گیا ہے، ترجمہ:
’’(اے محمدؐ!) یہ کتاب ہم نے تمھاری طرف برحق نازل کی ہے، لہٰذا تم اللہ ہی کی بندگی کرو، دین کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے۔ خبردار، دین خالص اللہ کا حق ہے‘‘۔ (الزمر: 2-3)
اسی سورئہ زمر میں دوسری جگہ کہا گیا ہے، ترجمہ:
’’کہہ دو کہ میں اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کرکے اسی کی بندگی کروں گا تم اس کے سوا جس جس کی بندگی کرنا چاہو کرتے رہو‘‘۔ (الزمر: 14-15)
یہ ایک سخت تنبیہی انداز ہے جو غیراللہ کی بندگی کرنے پر مشرکین کے لیے اختیار کیا گیا ہے۔ اسی طرح کی آیتیں قرآن میں اور بھی ہیں۔ مخصوص طور پر دعا کے لیے قرآن میں کہا گیا ہے: ’’اور پکارو اس کو خالص اس کے فرماں بردار ہوکر‘‘۔ (الاعراف: 29) سورئہ مومن میں ہے: ’’پس اللہ ہی کو پکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے خواہ تمھارا یہ فعل کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔ (المومن: 14)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ بندگی و طاعت کو اللہ کے لیے خالص کر کے صرف اسی کو پکارنا، اس کی دہائی دینا اور اس سے دعا کرنا کافروں کو سخت ناگوار ہے۔ وہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی پکارنا اور ان کی دہائی دینا پسند کرتے ہیں۔ سورئہ مومن ہی میں دوسری جگہ ہے:
’’وہی زندہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسی کو تم پکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے، ساری تعریف اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘‘۔ (المومن: 65)
آج بہت سے مسلمانوں کا بھی حال یہ ہے کہ ان کی بندگی و اطاعت اللہ کے لیے خالص رہی ہے اور نہ ان کی دعا۔ وہ اوامر الٰہی کے علم الرغم دوسروں کی اطاعت بھی کر رہے ہیں اور اللہ کے ساتھ دوسروں کی دہائی بھی دے رہے ہیں۔ کاش! وہ من گھڑت تاویلات کو ترک کرکے ان آیات پر غور کرتے۔
اکل حلال و کسب حلال
قبولیتِ دعا کے لیے دوسری اہم شرط یہ ہے کہ دعا کرنے والے کا رزق حلال ہو اور اس کی کمائی یا ذریعۂ معاش بھی حلال ہو، حرام خوری کے ساتھ دعا قبول نہیں ہوتی۔ یہ شرط صراحت کے ساتھ صحیح حدیث میں مذکور ہے اور اس میں نبیؐ نے قرآن کی دو آیتوں سے استشہاد فرمایا ہے۔ اس لیے کہنا چاہیے کہ اکل حلال و کسب حلال کی شرط اشارتاً خود قرآن میں مذکور ہے۔
امام مسلم نے کتاب الزکوٰۃ میں اور امام ترمذی نے سورئہ بقرہ کی تفسیر میں سیدنا ابوہریرہؓ سے یہ روایت کی ہے : رسولؐ نے فرمایا: اے لوگو! بلاشبہہ اللہ تمام نقائص و عیوب سے پاک ہے اور صرف حلال اور پاک چیزوں ہی کو قبول فرماتا ہے اور اس کے متعلق اس نے مومنوں کو وہی حکم دیا ہے جو اپنے رسولوں کو دیا ہے۔ اللہ نے اپنے رسولوں سے فرمایا ہے: ’’اے میرے پیغمبرو! تم پاک اور حلال غذا کھائو اور صالح عمل کرو۔ تم جو کچھ کرتے ہو میں پوری طرح اس سے باخبر ہوں‘‘۔ اور اپنے مومن بندوں سے اس نے کہا ہے: ’’اے ایمان لانے والو، تم میری دی ہوئی روزی میں سے حلال اور پاک چیزیں کھائو۔ پھر آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو (کسی مقدس مقام میں) لمبا سفر طے کر کے آتا ہے، پریشان مو اور غبارآلود مگر حال یہ ہوتا ہے کہ اس کاکھانا حرام، لباس حرام اور اس کا جسم حرام غذا سے پلا ہوا۔ پس اس شخص کی دعا کس طرح قبول ہو۔ حضورؐ نے اپنے ارشاد میں جن دو آیتوں کا حوالہ دیا ہے ان میں سے پہلی سورہ المومنون کی آیت 51 ہے اور دوسری سورئہ بقرہ کی آیت 172 ہے۔ قبولیتِ دعا کی اس شرط سے بھی مسلمان جو غفلت برت رہے ہیں اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
دعا کے اندر کی شرطیں
قرآن اور احادیث میں دعا کے اندر کی تین اہم شرطیں مذکور ہیں: حضور قلب، تضرع، خوف و رجاء۔
1۔حضور قلب کا مطلب یہ ہے کہ دعا کے وقت داعی کا دل اللہ کی طرف متوجہ اور اس کی بارگاہ میں حاضر ہو۔ ایسا نہ ہو کہ زبان سے تو دعا کے الفاظ نکل رہے ہوں اور دل کہیں اور کی ہوا کھا رہا ہو۔ دعا کے وقت اگر دل غافل ہو تو وہ قبول نہیں ہوتی۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے: اور جان لو کہ اللہ دعا قبول نہیں کرتا کسی غافل دل کی۔ (کنزالعمال)
اسی معنی کی حدیث طبرانی نے سیدنا عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ اگر دل ہی حاضر نہ ہو تو پھر تضرع اور خوف و رجا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ جب آدمی دعا کر رہا ہو تو اسے شعور ہونا چاہیے کہ وہ کیا کر رہا ہے، کیا کہہ رہا ہے اور کس سے کہہ رہا ہے۔
2۔تضرع کی شرط صراحتاً قرآن میں مذکور ہے۔ سورئہ اعراف کی آیت 55-56 کو سامنے رکھنا چاہیے۔ آیت 55 کا پہلا ٹکڑا یہ ہے: ’’اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے‘‘۔ یہاں تضرع کا مطلب یہ ہے کہ دعا کرنے والا اللہ کے سامنے اپنی ذلت، عاجزی، پستی اور ضعف کے زندہ شعور اور تازہ احساس کے ساتھ دعا کرے۔ اس کا مطلب زور زور سے چیخ چیخ کر دعا کرنا نہیں ہے کیونکہ اس کی صراحتاً ممانعت آئی ہے اور یہ آدابِ دعا کے خلاف ہے۔ مفسرین نے اس لفظ کی تفسیر تذلل تخثع اور استکانت کے الفاظ سے کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے سامنے اپنے بندے کی عاجزی کو بے حد پسند فرماتا ہے۔ وہ جب اپنے آقا و مولیٰ کے سامنے گڑگڑا کر دست سوال دراز کرتا ہے تو اس کے مالک کی رحمت اس کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے۔ قرآن میں کفار و مشرکین کی جن کیفیات و حالات کی مذمت کی گئی ہے ان میں ایک یہ بھی ہے کہ انھوں نے خدا کے سامنے عاجزی کا اظہار نہیں کیا اور نہ اس کے سامنے گڑگڑائے۔
’’اور ہم نے ان کو آفت میں پکڑا پھر نہ انھوں نے اپنے رب کے سامنے عاجزی کی اور نہ گڑگڑائے‘‘۔ (المومنون: 76)
قرآن ہی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دعا میں تضرع اور اخلاص وہ چیز ہے جو دنیا میں کفار و مشرکین کو بھی بعض مصیبتوں سے بچا لیتی ہے۔ مشرکین پر ان کے شرک کی حماقت واضح کرنے کے لیے فرمایا گیا ہے:
’’اے محمدؐ! ان سے پوچھو صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں کون تمھیں خطرات سے بچاتا ہے؟ کون ہے جس سے تم (مصیبت کے وقت) گڑگڑا کر اور چپکے چپکے دعائیں مانگتے ہو؟ کس سے کہتے ہو کہ اگر اس بلا سے تو نے ہم کو بچا لیا تو ہم ضرور شکرگزار ہوں گے۔ کہو، اللہ تمھیں اس سے اور ہر تکلیف سے نجات دیتا ہے۔ پھر تم دوسروں کو اس کا شریک ٹھیراتے ہو۔ (الانعام: 63-64)
کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے جب کہ وہ اسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے؟ اور (کون ہے جو) تمھیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے، کیا اللہ کے سوا کوئی اور خدا بھی (یہ کام کرنے والا) ہے؟ تم لوگ کم ہی سوچتے ہو۔ (آیت 16)
ان آیتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دعا میں تضرع اور اضطرار و بے قراری کی کیفیت اسے بارگاہِ الٰہی میں قابلِ قبول بنادیتی ہے۔ دعا اور ذکر دونوں ہی میں تضرع اور خوف و رجا کا مقام وہی ہے جو نماز میں خشوع اور خضوع کا ہے۔ ذکرِ الٰہی کے بارے میں فرمایا گیا ہے:
’’اے نبیؐ! اپنے رب کو یاد کیا کرو دل ہی دل میں گڑگڑاتے ہوئے اور خوفِ خدا کے ساتھ‘‘۔ (الاعراف: 205)
3۔خوف اور اْمید کے ساتھ دعا کرنے کی تعلیم بھی الاعراف، آیت 56 میں صراحتاً موجود ہے۔ ’’اور اس کو پکارو خوف کے ساتھ اور اْمید کے ساتھ‘‘۔ اللہ کے عذاب کا خوف اور اس کے ثواب کی اْمید وہ چیز ہے جو مومن کو راہِ اعتدال پر قائم رکھتی ہے۔ وہ نہ اسے بے پروا اور نڈر ہونے دیتی ہے اور نہ اسے مایوس اور دل شکستہ بناتی ہے۔ خاص دعا کے لحاظ سے اس بات کا اندیشہ کہ کسی کوتاہی کی وجہ سے دعا رد نہ کردی جائے۔ اسے دعا کے شرائط و آداب کی طرف متوجہ رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت بیکراں کا خیال اسے قبولیت ِ دعا کا اْمیدوار بناتا ہے۔ قرآن میں انبیاے کرام علیہم السلام اور صالح بندوں کی دعا و عبادت کی جو کیفیت بیان کی گئی ہے اس میں خوف و رجاء کا خاص طور پر ذکر ہے۔ ایک مقام پر انبیاء کے مختلف حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:
’’یہ لوگ نیکی کے کاموں میں دوڑدھوپ کرتے تھے اور ہمیں رغبت اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے، اور ہمارے آگے جھکے ہوئے تھے‘‘۔ (الانبیاء: 90)
ایک جگہ صالحین کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے:
’’ان کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں، اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ رزق ہم نے انھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘۔ (السجدہ: 16)
ہمیں اپنی عبادتوں اور دعائوں کو ان آیات کی کسوٹی پر کس کر دیکھنا چاہیے اور انھیں کھرا بنانے کی سعی کرنا چاہیے۔ یہی حقیقی تدبیر ہے ان کے نتائج و ثمرات حاصل کرنے کی۔