مشکل اور نازک حالات میں ممکنہ تدابیر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہونا چاہیے۔ اس کے لیے صبر اور نماز کا حکم دیا گیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’صبر اور نماز سے مدد لو، بیشک نماز ایک سخت مشکل کام ہے۔ مگر ان فرماں بردار بندوں کے لیے مشکل نہیں ہے جو سمجھتے ہیں کہ آخر کار انھیں اپنے رب سے ملنا اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے‘‘۔ (البقرۃ: 45-46)
صبر استقامت اور پامردی کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے دین کی راہ میں جو مشکلات اور آزمائشیں آتی ہیں ان پر ثابت قدم رہنا صبر ہے۔ جب کوئی قوم صبرکا ثبوت دیتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی نصرت اسے حاصل ہوتی ہے۔
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ (البقرۃ: 153)
جس قوم کو اللہ کی نصرت حاصل ہو اسے شکست نہیں دی جاسکتی۔ ’’اللہ تمھاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں، اور وہ تمھیں چھوڑ دے، تو اس کے بعد کون ہے جو تمھاری مدد کرسکتا ہو؟ پس جو سچے مومن ہیں ان کو اللہ ہی پر بھروسا رکھنا چاہیے‘‘۔ (آل عمران: 160)
زندگی کے نازک مراحل میں صبر کا ثبوت دینا آسان نہیں ہے۔ لیکن یہاں نماز کے متعلق فرمایاگیا: ’’بے شک وہ سخت ہے، مگر ان فرماں بردار بندوں کے لیے مشکل نہیں ہے جو سمجھتے ہیں کہ آخر کار انھیں اپنے رب سے ملنا اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے‘‘۔ (البقرۃ: 45-46)
یہاں رسمی نماز کا نہیں، بلکہ حقیقی نماز کا ذکر ہے۔ زندگی میں اسے شامل کرنا دشوار ہے۔ البتہ یہ ان کے لیے آسان ہے جن کے اندر خشوع وخضوع پایا جاتا ہے۔ جن کا ظاہر وباطن اللہ کے سامنے جھک جاتا ہے۔ جن کا ایمان ہے کہ یہ ناپائے دار زندگی، حیات ابدی کی طرف لے جارہی ہے۔ جس میں ہمیں اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہونا اور اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔
اس میں شک نہیں، کارزار حیات میں صبرکا ثبوت دینا آسان نہیں ہے۔ لیکن یہاں نماز کو مشکل عمل کہا گیا ہے اور کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے ہی اس پر عمل کرسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نماز ان خوبیوں کا سرچشمہ ہے جن سے قومیں ذلت و خواری سے نکل کر بام عروج پر پہنچتی ہیں۔ امت کی دینی ودنیوی فلاح بھی نماز ہی سے وابستہ ہے۔ صبر کا سرچشمہ بھی نماز ہی ہے۔ اللہ کے نیک بندوں کا یہ وصف خاص بیان ہوا ہے کہ وہ نماز کا اہتمام کرتے اور ہمیشہ اس کی پابندی کرتے ہیں۔ ’’جو اپنی نماز کی ہمیشہ پابندی کرتے ہیں‘‘۔ (المعارج: 23)، آگے فرمایا: ’’اور جو اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں‘‘۔ (المعارج: 34)
نماز کو حدیث میں مومن کی معراج کہا گیا ہے۔ جو اسے آسمان کی رفعت عطا کرتی ہے۔ نماز ذکر ہے۔ اس سے انسان اللہ تعالیٰ سے قریب ہوتا ہے۔ ہم نے نماز کو وہ مقام نہیں دیا جس کی وہ مستحق ہے۔ ورنہ ہماری زندگی کا رخ بدل جاتا۔ وہ ربّانی زندگی ہوتی اور اس سے ترقی کی راہیں بھی کھل جاتیں۔
جائزہ واحتساب
قرآن وحدیث میں بعض اوقات عمومی انداز میں جائزہ اور احتساب کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے۔ اس سے آدمی یہ سمجھنے لگتا ہے کہ وہ اس کا مخاطب نہیں ہے۔ اس سے اصلاح کی راہیں بند ہوجاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو‘‘۔ (الحشر: 18)
اس میں ان تمام لوگوں سے خطاب ہے جو ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ تقویٰ اختیار کریں۔ معصیت سے دامن کش رہیں اور اطاعت کی زندگی گزاریں۔ اس طرح کے عمومی خطاب کو آدمی یہ سمجھتا ہے کہ یہ دوسروں کے لیے ہے۔ اس سے وہ مطلوبہ فائدہ نہیں اٹھا پاتا۔ حالاں کہ یہ ایک آئینہ ہے جس میں ہر فرد مومن اپنی تصویر دیکھ سکتا اور خامیوں کی اصلاح کرسکتا ہے۔ آیت میں ان دونوں پہلوؤں کو جمع کردیا گیا ہے۔ چناں چہ اس کے فوراً بعد کہا گیا:
’’اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اْس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ یقیناً تمھارے اْن سب اعمال سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو‘‘۔ (الحشر: 18)
اس میں اسی تقویٰ کی تاکید ہے جو عمومی خطاب میں تھی۔
اس میں اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ آدمی خود ہی اپنا احتساب کرے اور اپنی اصلاح کرے۔ یہ اصلاح کا ابتدائی اور اہم قدم ہے۔ اس کے بعد ہی اصلاح وتربیت کے دوسرے ذرائع آتے ہیں۔