ایک مسلم اور مومن ایسے حالات میں بھی جب ابلاغِ عامہ عریانیت اور اخلاق دشمن فضا پیدا کرنے میں مصروف ہو اور حکمران مغرب کی ذہنی اور مالی غلامی پر فخر کرتے ہوں اور اس غلامی کو اپنے لیے وجۂ نجات تصور کرتے ہوں، نہ تو مایوس ہوسکتا ہے اور نہ جھنجھلاہٹ میں عقل و ہوش کا دامن چھوڑ سکتا ہے۔ اسے قرآن اور خاتم النبیؐ کے بتائے ہوئے طریق کار پر عمل کرنا ہوگا۔
اس طریق کار میں اولین چیز اپنے دل و دماغ کو اس بات پر حتمی طور پر مطمئن کرنا شامل ہے کہ وہ قرآن وسنت ہی کو اپنا مأخذ اور ذریعۂ قوت سمجھتا ہے اور باطل کی بظاہر کثرت اور یلغار سے نہ خائف ہے اور نہ اس کے آگے ہتھیار ڈالنے یا کسی گوشے میں جاکر اپنے آپ کو بچانے پر آمادہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ وہ استقامت اور صبر کے ساتھ، یعنی مسلسل جدوجہد کرنے ہی کو اسوۂ انبیا سمجھتا ہے، اس لیے 60، 70 سال جدوجہد کرنے کے باوجود نہ مایوس ہے، نہ دل برداشتہ۔ اس طریق کار میں جو حکمت و برکت ہے، وہ کسی وقتی جذباتی فیصلے سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ تیسری بات یہ کہ وہ جس حال میں اور جہاں کہیں بھی ہے اسے اپنے جہاد کو جاری رکھنا ہے اور نظام باطل کی کمزوریوں کو واضح کرنے کے ساتھ وہ انسانی اثاثہ تیار کرنا ہے جو آخرکار مثالی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے شرطِ اول کی حیثیت رکھتا ہے۔
اسلامی ریاست کا قیام نہ تو کسی یک شبینہ انقلاب سے ہوسکتا ہے اور نہ کسی جلوس کے مطالبے سے بلکہ اس کے لیے افرادِ کار کی وہ جماعت درکار ہے جو رات کو عبادت گزار ہو اور دن میں باطل معاشی نظام، باطل رسوم و رواج، باطل فکر اور باطل اقتدار کے خلاف عملاً تبدیلی لانے کی جدوجہد میں شامل ہو۔
اسلامی ریاست کی پہلی اینٹ ایک مسلمان گھرانے میں شوہر اور بیوی کا اپنے معاملات میں اسلام کو نافذ کرنا ہے۔ اس کی دوسری اینٹ ان والدین کا اپنی اولاد کو اسلامی تعلیمات کے مطابق عمل پر آمادہ کرنا ہے۔ اس کی تیسری اینٹ اس مسلمان گھرانے کا اپنے طرزِعمل، اخلاق اور تعاونوا علی البر والتقویٰ اور امربالمعروف کے مثبت اصولوں کی مدد سے اپنے محلے کے افراد کے مسائل کے حل کرنے میں ان کا ہاتھ بٹانا ہے۔ اس کی چوتھی اینٹ نہ صرف محلہ بلکہ ملک میں ہونے والی نظامِ اسلامی کے قیام کی جدوجہد میں جس سطح پر بھی ممکن ہو، قلم سے، مال سے، جسم و جان سے اپنا حصہ ادا کرنا ہے۔
گویا مثالی اسلامی ریاست اچانک کسی غیبی اعلان سے نافذ نہیں ہوگی بلکہ افراد کار کو اور خصوصاً ان لوگوں کو جو اپنے آپ کو تحریک کا ہم خیال سمجھتے ہیں، آگے بڑھ کر بتدریج لیکن مستقل مزاجی یا صبر کے ساتھ اس کام کو اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا۔ قرآن کریم نے اس بات کو سورئہ رعد میں بطور ایک اصول کے واضح طور پر ہمارے سامنے رکھ دیا ہے:
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘۔ (الرعد: 11)
لہٰذا اگر صاحبِ اقتدار ٹولہ چور ہو، ملک کا بدخواہ ہو، بیرونی طاقتوں کا غلام ہو، مفاد پرست ہو تو محض اس بات کا اظہار کرکے دل کی بھڑاس نکالنا کافی نہیں ہوسکتا۔ قوم کو اللہ کی بندگی کے راستے پر اس کے احکام پر عمل کرتے ہوئے، دبائو اور لالچ کے باوجود کسی مفاہمت اور وقتی طور پر باطل کا ساتھ دیے بغیر اپنے موقف کو دلیری اور اعتماد کے ساتھ صرف اور صرف قرآن و سنت کے مطابق اختیار کرنا ہوگا۔ جب قوم اپنے اوصاف کو تبدیل کرے گی تو قلتِ تعداد کے باوجود فتح یاب ہوگی اور باطل لرز کر اور خائف ہوکر یا تو میدان چھوڑے گا یا مقابلے پر آنے کے بعد شکست کھائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے ابدی اور آفاقی اصول ہر دور میں ہر مقام پر یکساں ہیں۔ ہمارے لیے کوئی الگ شریعت نہیں آئے گی۔
ہمیں مثالی اسلامی معاشرے اور ریاست کے قیام کے لیے اپنے گھر میں چھوٹے پیمانے پر اْس ریاست کو، اپنے محلے میں چھوٹے پیمانے پر اس ماحول کو، اور آخرکار اپنے ملک میں وسیع تر پیمانے پر ان اصولوں کو بتدریج نافذ کرنا ہوگا۔ یہ طریق کار وہی ہے جو خاتم النبیؐ نے مکہ اور مدینہ میں اولین جماعت ِ مجاہدین میں عملاً نافذ فرمایا۔
یہی وہ طریق کار ہے جو تحریکاتِ اسلامی نے اختیار کرنا چاہا ہے اور اسی کو اختیار کرنے کے بعد ہم پاکستان میں ان شاء اللہ ایک مثالی ریاست قائم کریں گے۔ اس اعتماد کے ساتھ رب کریم سے استعانت مانگنے کے ساتھ اصل کرنے کا کام ایسے افرادِ کار کی تیاری ہے جو ایمان، صبر واستقامت، حکمت دینی اور تفقہ فی الدین سے آراستہ ہوں۔