قضائے عمری

202

ایک مسلمان جب بالغ ہوجائے تو اس پر تمام شرعی فرائض ادا کرنا لازم ہوجاتے ہیں۔ اگر کسی آدمی کو بلوغت کے بعد اس کا احساس نہ ہوا، ماں باپ یا ملنے جلنے والے مسلمانوں نے اس کی اصلاح کی کوشش نہ کی یا کوشش کی ہو لیکن اسے احساس نہ ہوا ہو۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ اسے توبہ کی توفیق ملی اور اس نے توبہ کے بعد تمام فرائض ادا کرنا شروع کردیے۔ وہ پانچ اوقات کی نمازیں، رمضان کے روزے، زکوٰۃ اور دیگر فرائض اداکرنے لگا ہے تو اس کی توبہ کا تقاضا یہ بھی ہے کہ وہ سابقہ زندگی کی کوتاہیوں پر نادم ہو اور جو فرائض توبہ سے پہلے تک کے عرصے میں اس سے رہ گئے ہیں وہ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم ہیں۔ وہ ازخود ساقط نہیں ہوں گے جب تک وہ ان فرائض کو ادا نہ کرلے۔ اپنی عمر بھر کی نمازوں اور دیگر فرائض کو ادا کرنا قضاے عمری کہلاتا ہے۔
جس آدمی نے بالغ ہونے کے بعد فرض نمازیں نہ پڑھی ہوں، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر ’دین‘ ہیں۔ جیسے ایک آدمی نے کسی سے کوئی چیز خریدی ہو اور اس کی قیمت اس کے ذمے رہتی ہو تو وہ رقم اس آدمی پر دین ہوتی ہے اور وہ اس وقت ساقط ہوتی ہے جب وہ اس رقم کو ادا کردے۔ یہی حکم فرض نماز اور روزے کا ہے۔
آپ نے بھولی ہوئی نماز کو یاد آنے کے بعد ادا کرنے کا ذکر کیا اور حدیث شریف میں اداہی کو اس کا کفارہ قرار دیا ہے۔ تو جان بوجھ کر ترک کر دینے والی نماز کو تو بدرجہ اولیٰ ادا کرنا ضروری ہوگا تاکہ اس کی ادایگی سے اس کا کفارہ بھی ہوجائے۔ یہ بات ہر مسلمان کو معلوم ہونی چاہیے کہ بالغ ہونے کے بعد فرائض اور واجبات کو ترک کر دینا خصوصاً فرض نمازوں کو ادا نہ کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔ بعض فقہا نے تو اس کو اتنا بڑا گناہ قرار دیا ہے کہ ان کے نزدیک اس کی تلافی قضا سے بھی نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا اس کی تلافی کے لیے قضا کے ساتھ مسلسل توبہ و استغفار بھی ضروری ہے۔
قضاے عمری کا یہ معنی نہیں ہے کہ ماضی کی تمام قضا نمازوں کے عوض کوئی شخص کسی دن دو رکعت پڑھ کر ماضی کی ساری نمازوں سے سبکدوش ہوجاتا ہے۔ یہ علما میں سے کسی عالم کا نظریہ نہیں۔ لوگوں نے اپنی طرف سے اس قسم کی قضا عمری اختراع کی ہے۔
قضا کا طریقہ یہ ہے کہ بلوغت کے بعد جتنے سالوں کی نمازیں رہ گئی ہوں اتنے سال وقتی نماز کے ساتھ ایک ایک قضا نماز بھی پڑھے، اس طرح ہر دن پانچ فرض نمازوں کے ساتھ پانچ قضا نمازیں بھی ادا ہوجائیں گی اور کسی بڑی مشکل کے بغیر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ فرض کی ادایگی کی سعادت حاصل ہوجائے گی۔ یہ بات ذہن میں رکھی جائے کہ قضا صرف پانچ اوقات کے فرائض اور وتروں کی ہوتی ہے۔ سنتوں کی قضا ضروری نہیں۔