گزشتہ کئی عشروں سے جاری سندھ کے وہی حالات حاضرہ

311

ایک عام آدمی کو درپیش مسائل اتنے زیادہ اور متنوع ہیں کہ کسی ایک مضمون میں انہیں سمیٹنا یا ان کا احاطہ کرنا بہت مشکل ہے۔ اہل سندھ عرصہ دراز سے وفاقی اور صوبائی حکومت کی بدحکومتی کو بھگتنے پر مجبور ہیں۔ حکومت سندھ جس کی باگیں گزشتہ ڈیڑھ دہائیوں سے بھی زائد عرصے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ہاتھوں میں ہیں، اس کے طویل دورِ اقتدار میں اہل ِ سندھ کے مسائل اور مصائب کم کیا ہونے تھے۔ اس کے برعکس ان میں اور زیادہ اضافہ ہوچکا ہے۔ اب یہ بات کوئی نئی بات نہیں رہی ہے کہ اس دورِ جدید میں بھی سندھ کے شہر اور قصبات باقاعدہ کھنڈر بن چکے ہیں۔ روڈ اور راستے ٹوٹ پھوٹ کر ناقابل استعمال ہوگئے ہیں۔ سندھ کا سارا انفرا اسٹرکچر جو پہلے ہی تباہی سے دوچار تھا۔ مون سون کی حالیہ بارشوں نے رہی سہی کسر بھی پوری کر ڈالی ہے۔ گزشتہ تین دن میں وقفے وقفے سے اور کبھی متواتر طوفانی بارشوں کی وجہ سے صوبہ سندھ کے تمام شہروں کے روڈ اور راستے زیر آب آگئے ہیں۔ جگہ جگہ شدید بارشوں کے کھڑے ہوئے پانی کی وجہ سے عام افراد کا ایک جگہ سے دوسری جگہ تک پیدل یا سواری پر جانا بھی ایک طرح سے محال بن چکا ہے۔ سندھی روزنامہ ’’سوبھ‘‘ حیدر آباد کی شہ سرخی کے مطابق حالیہ مون سون کی تیز طوفانی بارشوں کے نتیجے میں 33 افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔ بڑے پیمانے پر چاولوں کی تیار فصل تباہی سے دوچار ہوئی ہے۔ پی پی پی کے سیاسی گڑھ لاڑکانہ میں حالیہ بارش کی وجہ سے تمام مقامات پر کئی فٹ پانی کھڑا دکھائی دیتا ہے جو پی پی کی سندھ حکومت کی ناکامی کا ایک واضح مظہر ہے۔

راقم سے کل رات موبائل پر دورانِ گفتگو امیر جماعت اسلامی ضلع لاڑکانہ ابو زبیر جکھرو نے بتایا کہ لاڑکانہ میں شاید ہی کوئی اہم روڈ، راستہ یا بازار ایسا ہوگا جہاں پر گھٹنوں گھٹنوں تک پانی کھڑا ہوا نہ ہو۔ یہی حال سندھ کے دیگر اضلاع کا بھی ہے۔ لاڑکانہ میں چانڈکا میڈیکل کالج سمیت دیگر اہم عمارات میں بارش کے پانی کا داخل ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ پی پی پی کی حکومت نے اہل سندھ کو ان کے ووٹ اور سپورٹ کے بدلے میں ماسوائے مایوسی اور ناامیدی کے اور کچھ بھی نہیں دیا ہے۔ ایسے میں چیئرمین پی پی پی بلاول زرداری کا یہ بیان کس قدر مضحکہ خیز معلوم پڑتا ہے کہ سندھ میں حالیہ بارشوں سے ہونے والی تباہی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہوئی ہے۔ موصوف کس قدر آسانی سے اپنی گزشتہ ڈیڑھ عشروں سے زائد سندھ حکومت کی نااہلی اور ناکامی پر پردہ ڈال کر سارا قصور اور الزام موسمیاتی تبدیلیوں پر عائد کررہے ہیں۔ سندھ کا بچہ بچہ اب اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہوچکا ہے کہ پی پی پی کی سندھ حکومت کے بیش تر ذمے داران کتنے زیادہ نااہل اور کرپٹ ہیں۔ سندھ کے منتخب عوامی اور بلدیاتی نمائندے اگر ترقیاتی فنڈز بجائے اپنی تجوریوں میں بھرنے کے اسی مد میں اس کا استعمال کریں جس مقصد کے لیے انہیں مذکورہ فنڈز ملتے ہیں تو سندھ کے تمام شہر اور قصبات اس دورِ جدید میں بھی چار ہزار سالہ قدیم آثار موئن جودڑو کے مناظر ہرگز پیش نہ کریں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پی پی پی کی اعلیٰ سطح کی ساری قیادت سندھ کے ترقیاتی فنڈز میں ہونے والے گھپلوں سے بخوبی واقف ہے۔ تاہم اس کی جانب سے اس بار میں دیدہ دانستہ اغماض برتا جاتا ہے اور چشم پوشی اختیار کی جاتی ہے۔ سندھ میں آج ایک عام فرد کے لیے زندگی گزارنا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔ بہت سارے ایسے مسائل اور پریشانیاں ہیں جن کی بنا پر ایک عام فرد صوبہ سندھ میں سخت بے اطمینانی اور بے سکونی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوچکا ہے۔ ویسے تو سارے ملک ہی کے حالات ابتر اور خراب ہیں لیکن صوبہ سندھ میں صورت حال بدترین ہوچکی ہے۔

صوبہ سندھ میں چند ماہ قبل بورڈز کے زیر اہتمام درجہ نہم اور دہم کے جو امتحانات ہوئے تھے اب عن قریب ان کے نتائج کا اعلان بھی ہونے والا ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق لاڑکانہ بورڈ میں متمول طلبہ اور طالبات کے والد یا سر پرست اپنے اپنے بچوں اور بچیوں کو پوزیشن دلانے یا زیادہ مارکس کے حصول کی خاطر باقاعدہ لاڑکانہ بورڈ کے بدعنوان عملے سے سودے بازی میں مصروف ہیں۔ گزشتہ دنوں سکھر بورڈ کے نتائج کا اعلان ہوچکا ہے اور شنید ہے کہ مبینہ طور پر وہاں پر بھی مذکورہ مکروہ اور گھنائونا عمل برسرعام کیا جاچکا ہے۔ دیگر سرکاری بورڈز کا حال بھی بہت ہی برا ہے جہاں کرپشن کا بازار گرم ہے، ایسے میں ذہین طلبہ اور طالبات کہاں جائیں اور کس سے فریاد کریں؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ سندھ کے تمام بورڈز میں کرپشن کے اس مکروہ عمل کے خاتمے کے لیے فی الفور عملی اقدامات کیے جائیں ورنہ محنتی ذہین طلبہ اور طالبات خدانخواستہ ہمت ہار بیٹھیں گے۔