پاکستانی معاشرے کے بارے میں یہ رائے خاصی عام ہوگئی ہے کہ یہ ایک بگڑا ہوا معاشرہ ہے اور یہاں آوے کا آوا خراب ہو گیا ہے، چنانچہ اس کا کچھ نہیں ہو سکتا۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اس قوم کو اسلام کی بھی کوئی ضرورت نہیں، چنانچہ ہمیں کسی انقلاب کی بھی کوئی حاجت نہیں۔ یہ جو ہر طرف انقلاب کی باتیں ہو رہی ہیں یہ سب سطحی گفتگو اور خیالی مٹرگشت کے سوا کچھ نہیں۔
معاشرے بگڑتے سنورتے رہتے ہیں۔ یہ ایک طرح کا جدلیاتی عمل ہے لیکن کوئی معاشرہ خیر و خوبی کو قبول کرنے کی صلاحیت سے یکسر محرم نہیں ہوجاتا اور ایسا ہوجاتا ہے تو پھر وہ باقی نہیں رہتا، فنا کر دیا جاتا ہے اور فنا کا جواز خود اسی معاشرے سے فراہم ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا اصول ہے جو قرآن مجید میں امتوں کے احوال سے عیاں ہو کر سامنے آیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم بہت بگڑ گئے ہیں اور کم و بیش ہر خرابی ہم میں در آئی ہے لیکن ابھی ہم بحیثیت مجموعی خراب نہیں ہوئے ہیں۔
یہاں ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ مکمل خرابی کس عمل کا نام ہے۔ بلا شبہ اصولوں سے انحراف بڑی خرابی ہے اور اخلاقی بگاڑ اور دوسری معاشرتی خرابیاں اس انحراف کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں لیکن یہ ایسے امراض ہیں جن کا علاج ہو سکتا ہے۔ اس تناظر میں مکمل خرابی اصولوں سے انحراف کا نہیں، اصولوں کی تردید اور ان کے انکار کا نام ہے اور یہ خرابی، بہر حال ہم میں موجود نہیں۔ چنانچہ معاشرے اور معاشرے میں انقلاب کے امکان سے مایوس ہونے کا کوئی جواز نہیں۔
البتہ مذکورہ تاثر ایسے ہی پیدا نہیں ہوا۔ بہت سے لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ طویل اجتماعی جدو جہد کوئی نتیجہ پیدا نہیں کر سکی ہے۔ بلاشبہ نتیجہ بہت اہم چیز ہے لیکن تجزیہ کیا جائے تو یہاں نتیجے سے مراد سیاسی نتیجہ ہے۔ سیاسی نتیجے کی اہمیت سے انکار نا ممکن ہے لیکن ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ انقلاب کے سلسلے میں سیاسی نتیجہ آخری نتیجے کی حیثیت رکھتا ہے اور اس سے پہلے کئی نتائج سامنے آتے ہیں۔
یہاں سیاسی نتیجے سے مراد محض انتخابی نتیجہ نہیں۔ انقلابات کی تاریخ انتخابی راستے سے الگ ہی مرتب ہوتی ہے لیکن یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ سیاسی نتیجے کی حیثیت ایک سورج کی طرح ہے۔ جب سورج طلوع ہو جاتا ہے تو پھر سورج اور اس کی روشنی کے امکان پر بات نہیں ہوتی۔ اسی طرح جب انقلاب آچکا ہوتا ہے تو پھر اس سے متعلق اکثر بحثیں بیکار ہو جاتی ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو انقلاب کے امکان کے سلسلے میں سیاسی نتیجے کے بجائے دوسرے نتائج کی تلاش اور تعین زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
یہ امر بالکل عیاں ہے کہ اتحاد کی ضرورت انتشار ہی میں محسوس ہوتی ہے اور انقلاب کا تقاضا ہمہ گیر خرابی ہی سے اُبھرتا ہے۔ ہمارے یہاں خرابیاں تو ہمیشہ سے تھیں لیکن یہ خرابیاں اتنی ہمہ گیر نہیں تھیں کہ ان کے اثرات طبقاتی حد بندیوں کو پامال کرتے ہوئے معاشرے کے ایک ایک فرد تک پہنچ جائیں۔ لیپا پوتی کے عمل سے معاملات کو کھینچا جاتا رہا لیکن گزشتہ آٹھ دس برسوں میں نظام اس حد تک خراب ہوا ہے کہ اس کے اثرات سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔ خرابی کے تجربے کی یہ عمومیت بہت اہم ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ نچلے طبقے کی اپنی شکایتیں ہیں اور متوسط طبقے اور تاجروں اور صنعت کاروں کے اپنے مسائل لیکن جوہری اعتبار سے ان کے تجربے میں کوئی فرق نہیں رہ گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ تجربہ فکری یا ذہنی نہیں بلکہ ٹھوس ہے اور اس کے خلاف کوئی دلیل اور کوئی حیلہ کارگر نہیں۔ مستقل مسائل کے عارضی حل تلاش کرنے سے ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔ لیکن یہاں قابل ذکر بات یہی ہے کہ ماورائے سیاست تجربے کا یہ اشتراک انقلاب کے جواز ہی کی نہیں، اس کے امکان کی بھی علامت ہے۔
تجربے کے اشتراک کے ساتھ مزاحمت کا رجحان بھی اہم ہوتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ سر دست یہ مزاحمت کہیں موجود نہیں لیکن مزاحمت کی خواہش ہر جگہ موجود ہے اور تاجر برادری نے کسی بھی وجہ سے سہی، اس مزاحمت کی ایک چھوٹی سی مثال بھی قائم کر دی ہے۔ حکومت اس مزاحمت کو توڑنے اور دبانے میں بڑی حد تک کامیاب ہو گئی ہے لیکن اس کامیابی کی نوعیت ایسی ہے کہ اس سے ایک نئی مزاحمت کسی بھی وقت جنم لے سکتی ہے۔
ان حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ تجربے کے اشتراک اور مزاحمت کے عمل کی نشاندہی، حوصلہ افزائی اور پشت پناہی کی جائے، اس کے بغیر صورت حال سیال رہے گی اور وہ قوت ہمیں فراہم نہیں ہو سکے گی جو انقلاب کی لازمی شرط ہے۔
پاکستانی معاشرہ ذہنی سطح پر سماجی و اقتصادی پس منظر اور سیاسی تفریق اور سیاسی وابستگیوں کے تناظر میں ایک ناہموار اور قدرے پیچیدہ معاشرہ ہے، اور اس کے لیے پیغام کی ایک سطح اور ایک لہر کافی نہیں ہو سکتی تھی اور نہ کافی ہو سکتی ہے، چنانچہ وہ قوتیں جو انقلاب کے لیے کام کر رہی ہیں ان کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ ان سطحوں کا ہر اعتبار سے خیال رکھیں۔ انقلاب کے لیے آئیڈیلزم اور حقیقت پسندی دونوں ناگزیر ہوتے ہیں۔ انقلاب نہ خالی خولی آئیڈیلزم سے آسکتا ہے اور نہ صرف حقیقت پسندی سے۔ ان دونوں کا امتزاج ضروری ہے۔ ہمارے یہاں اس سلسلے میں افراط و تفریط ہوتی رہی ہے جس سے بہت سے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے میں انقلاب کا قوی امکان موجود ہے، اس لیے کہ یہاں وہ حالات پیدا ہو چکے ہیں جو انقلاب کے لیے سازگار ہوتے ہیں۔ لیکن صرف حالات کے سازگار ہونے سے کچھ نہیں ہوتا، انقلاب کے لیے انقلابی حکمت عملی بھی ناگزیر ہے۔