بھارت کے شہر کولکتہ میں ایک ٹرینی ڈاکٹر سے زیادتی اور قتل کے کیس کے بارے میں مرکزی تفتیشی ادارہ (سی بی آئی) آج سپریم کورٹ میں اپنی رپورٹ پیش کرے گا۔ اس قتل نے مشرقی ریاست مغربی بنگال سمیت کئی ریاستوں میں حالات بگاڑ دیے ہیں۔
دو ہفتے پہلے ہونے والے اس المناک واقعے کے بعد احتجاج کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو اب تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ کئی ریاستوں میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈکس کے احتجاج میں اب سیاست دان، کھلاڑی، اداکار اور کاروباری شخصیات بھی شریک ہوچکی ہیں۔ بھارت کے سابق ٹیسٹ کرکٹر سورو گانگولی بھی کولکتہ میں ایک احتجاجی مارچ میں شریک ہو رہے ہیں۔
کولکتہ کے آر جے کار میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل میں جونیر لیڈی ڈاکٹر سے زیادتی اور پھر اُس کے بہیمانہ قتل پر میڈیکل کمیونٹی نے شدید ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے ریاستی حکومتوں سے بہتر سیکیورٹی انتظامات کا مطالبہ کیا ہے۔ کئی ریاستوں میں حقوقِ نسواں کی تنظیمیں بھی میدان میں آگئی ہیں اور یہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ خواتین کو نقل و حرکت محدود رکھنے کی ہدایت کرنے کے بجائے سیکیورٹی بڑھائی جائے۔
بھارت میں خواتین اور بچیوں پر مجرمانہ حملوں میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ روزانہ کئی ریاستوں سے ایسی خبریں آرہی ہیں کہ کسی نے تین چار سال کی بچی سے زیادتی کی یا اسکول میں ٹیچر نے طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کی۔ پولیس اور انتظامیہ بھی سمجھ نہیں پارہی کہ اس قبیح رجحان پر کس طور قابو پایا جائے۔ معاشرتی خرابیوں کے نتیجے میں لوگوں کے مزاج میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے معاملات کو اِتنا الجھادیا ہے کہ لوگوں کے دلوں سے اب سزا کا خوف بھی نکل چکا ہے۔ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی لوگ انجان بن جاتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جو جی میں آتا ہے۔
بھارت میں ہر سطح کی حکومت خواتین اور بچیوں سے زیادتی اور قتل کےبڑھتے ہوئے واقعات سے پریشان ہیں اور اس حوالے سے بڑھتے ہوئے احتجاج سے بھی الجھن کا شکار ہیں۔ بہت سے مقامات پر ایسے کسی واقع پر شدید احتجاج ہوتا ہے تو ہزاروں، لاکھوں افراد کے معمولاتِ زندگی بُری طرح متاثر ہوتے ہیں۔