پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو پہلے ہی متعدد ماحولیاتی چیلنجوں سے نبرد آزما ہے اسے ایک اور نازک مسئلہ کا سامنا ہے جو فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ اور یہ معاملہ ہے جنگلات کی کٹائی اور درختوں اور پودوں کی شرح میں خوفناک حد تک کمی کا۔ درختوں کی بے دریغ کٹائی کے نقصان کی خطرناک شرح کے بہت دور رس نتائج ہیں، جس سے نہ صرف ہمارے ماحول بلکہ ہماری معیشت، صحت اور مستقبل کو بھی خطرہ ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھیں اور اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے اجتماعی اقدام کریں۔ اعداد وشمار خطرے کی گھنٹی بجارہے ہیں۔ پاکستان پچھلی چند دہائیوں میں اپنے 40 فی صد سے زیادہ جنگلات کھو چکا ہے جس سے ہمارے پاس جنگلات کا صرف 2 فی صد حصہ رہ گیا ہے۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق کسی ملک کی اچھی آب وہوا کے لیے ضروری ہے کہ اس کے پہاڑی علاقوں میں 60 فی صد اور میدانی علاقوں میں کم از کم 20 فی صد رقبہ جنگلات اور درختوں پر مشتمل ہونا چاہیے۔ اس زبردست کمی نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے طوفان کو جنم دیا ہے، تیزی سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت، مٹی کا کٹاؤ، پانی کے چکر (واٹر سائیکل) میں خلل اور حیاتیاتی تنوع کا نقصان۔ قدرتی آفات کے بڑھتے ہوئے خطرے سے لے کر ہوا اور پانی کے معیار میں کمی، اور زراعت اور غذائی تحفظ پر تباہ کن اثرات درختوں کی کمی کے ہی سنگین نتائج ہیں۔
جنگلات کی کٹائی کے سب سے اہم اثرات میں سے ایک موسمیاتی تبدیلی ہے۔ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے اور آکسیجن پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کم درختوں کے ساتھ، ماحول میں گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار بڑھ جاتی ہے، جس کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے اور انتہائی سخت موسمی حالات پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہماری زراعت، آبی وسائل اور انسانی صحت پر شدید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مٹی کا کٹاؤ جنگلات کی کٹائی کا ایک اور نتیجہ ہے۔ درخت مٹی کو جگہ پر رکھنے اور اسے کٹاؤ سے بچانے میں مدد کرتے ہیں۔ درختوں کے بغیر، مٹی دھل جاتی ہے، جس سے لینڈ سلائیڈنگ، سیلاب اور زرخیزی میں کمی واقع ہوتی ہے۔ اس سے نہ صرف زرعی پیداوار متاثر ہوتی ہے بلکہ قدرتی آفات کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
پانی کے چکروں میں خلل ایک اور اہم مسئلہ ہے۔ درخت پانی کو جذب اور ذخیرہ کرکے پانی کے چکر کو منظم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ کم درختوں کے باعث زمین کے نیچے پانی کی سطح گرتی چلی جاتی ہے، جس کی وجہ سے پانی کی دستیابی میں کمی واقع ہوتی ہے اور بارشوں کے انداز میں تبدیلی آتی ہے۔ کبھی طویل عرصہ خشک سالی رہتی ہے تو کبھی بے وقت اور شدید بارش جس سے سیلابی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے ہماری زراعت، صنعت اور پانی کے انسانی استعمال پر شدید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
حیاتیاتی تنوع کا نقصان بھی ایک اہم تشویشناک مسئلہ ہے۔ درخت پودوں اور جانوروں کی ان گنت انواع کے لیے مسکن فراہم کرتے ہیں۔ جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے ان درختوں کے باسیوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے، جس سے ماحولیاتی نظام کا توازن اور لچک ختم ہو جاتی ہے۔ جنگلات کی کٹائی کے نتائج صرف ماحولیاتی تبدیلیوں تک ہی محدود نہیں ہیں۔ ان کے انسانی صحت اور معیشت پر بھی شدید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہوا اور پانی کے معیار میں کمی سانس کے مسائل اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔ زرعی پیداوار میں کمی اور پانی کی دستیابی میں کمی سے غذائی تحفظ اور معاشی استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔
اس نازک مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہمیں اجتماعی اقدام کرنا چاہیے۔ جنگلات کی کٹائی اور شجرکاری کی کوششیں شروع کی جانی چاہئیں، ہمیں مقامی انواع کو ترجیح دیتے ہوئے اور کمیونٹیز کی زیر قیادت اقدامات کرنے ہوں گے۔ پائیدار جنگل کے انتظام کے طریقے، جیسے ذمہ داری اور باقاعدگی سے نئے درختوں اور پودوں کی شجرکاری اور جنگل کا تحفظ، نقصان کو کم کرنے میں بھی مدد کر سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ حکومت کو جنگلات کو شہر کاری یعنی انسانی بستیوں کی آبادکاری سے بچانے اور ماحولیاتی قوانین کو نافذ کرنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کرنے چاہئیں۔ انفرادی اعمال، جیسے کاغذ کی کھپت کو کم کرنا اور ماحول دوست مصنوعات کا استعمال بھی مسئلہ کے حل میں مددگار ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں جنگلات کی کٹائی کے تباہ کن نتائج فوری توجہ اور کارروائی کے مستحق ہیں۔ ہمیں اس مسئلے کی سنگینی کو پہچاننا چاہیے اور اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے اجتماعی طور پر کام کرنا چاہیے۔ اپنے ماحول کے تحفظ کی ذمہ داری لے کر، ہم آنے والی نسلوں کے لیے ایک پائیدار مستقبل کو یقینی بنا سکتے ہیں۔
قارئین کرام! درخت، پودے اور جنگل ہم انسانوں کے دوست ہیں۔ جس بیدردی سے ہم نے اپنے ان دوستوں کو نقصان پہنچایا ہے اور جتنی تیزی سے ان کا خاتمہ کیا ہے، آج اسی نااہلی اور غیرذمے داری کے نتائج ہم بھگت رہے ہیں۔ سال بہ سال گرمی کی شدت میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔ جابجا لوگ یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ ’’ایسی گرمی نہ کبھی دیکھی نہ سنی‘‘ ایسے میں جو وسائل رکھتے ہیں ان لوگوں نے گرمی کی شدت سے بچنے کے لیے گھروں میں ائرکنڈیشنر لگوالیے۔ بڑی تعداد میں لگائے گئے ان ائرکنڈیشروں سے خارج ہونے والی گرین گیسوں سے صورتحال اور خراب ہوتی جارہی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم ان مہنگے اور مصنوعی آلات کے بجائے درخت لگانے پر توجہ دیتے تو آج موسم کی سختی کا یہ حال نہ ہوتا اور درخت لگانے والوں کو صدقہ جاریہ کا ثواب بھی ملتا رہتا۔
آج ہمیں کئی مرتبہ طوفانی بارشوں سے پیدا ہونے والی کیفیت میں نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ معمولات زندگی ٹھپ ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اب بھی اگر ہم نے توجہ نہ دی تو خدانخواستہ آئندہ اور زیادہ تباہی اور نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں حکومتیں، این جی اوز اور مختلف ادارے سال میں ایک آدھ مرتبہ اعلان کرکے شجرکاری مہم شروع تو کرتے ہیں لیکن ان مہمات میں لگائے گئے پودوں کا بعد میں کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ یوں ان مہمات کی حیثیت نمائشی اقدام سے زیادہ نہیں رہ جاتی۔ یہاں شہر کراچی میں جماعت اسلامی کے منتخب نمائندگان کے زیرانتظام چلنے والے ٹائونز کی تعریف بیجا نہ ہوگی کہ ان تمام ٹائون کے چیئرمین حضرات کی خصوصی توجہ اور نگرانی میں منظم اور مربوط شجرکاری کی جارہی ہے۔ پارکوں اور باغات کو دوبارہ سرسبزو شاداب بنایا جارہا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ مہم کے دوران لگائے گئے درختوں اور پودوں کی نگہبانی بھی جاری ہے تاکہ یہ پودے تناور درخت بن کر ماحول کی بہتری میں کردار ادا کرسکیں۔ گلبرگ ٹاؤن نے تو کمال ہی کردیا، نہ صرف اپنے ٹائون کے درجنوں پارکس کی رونقیں بحال کردیں بلکہ سہراب گوٹھ تا شفیق موڑ ’’شہری جنگل‘‘ قائم کرنے کا منصوبہ بھی شروع کردیا ہے۔ کاش! کہ یہ جذبہ ہماری شہری، صوبائی اور وفاقی حکومتوں میں بھی پروان چڑھ جائے تو ان شاء اللہ جلد ہی پاکستان اس خطرناک صورتحال سے نکل کر بہتری کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔