کڑوا سچ تلخ حقائق

356

اے ابن آدم آپ نے جماعت اسلامی کے دھرنے کے بعد دیکھ لیا کہ اُس کے ثمرات جلد قوم کو مل گئے۔ پٹرول کی قیتموں میں کمی وزیراعظم نے بھی آئی پی پیز کے خلاف ایکشن لینے کا فیصلہ کرلیا۔ پنجاب کی وزیراعلیٰ نے بجلی 14 روپے فی یونٹ کم کرانے کا اعلان کردیا۔ دیگر صوبوں کے اعلان کا انتظار ہے۔ قوم ہمت سے کام لے، ہوگا وہی جو جماعت اسلامی کا مطالبہ ہے، ان شاء اللہ نسلوں کی بقا کے لیے جماعت اسلامی کوٹا سسٹم کو ختم کرنے کا بھی مطالبہ کرے گی۔ مجھے سوشل میڈیا پر محترم شہاب الدین حیدری صاحب کی فکر انگیز پوسٹ نظر آئی جس کو کالم کا حصہ بنارہا ہوں۔ کوٹا سسٹم ملک کو مضبوط معمار سے محروم کرتا جارہا ہے، سمندر کا سارا پانی مل کر بھی ایک چھوٹی سی کشتی کو ڈبونے کی طاقت سے محروم ہے، کشتی تب ہی ڈوبتی ہے جب کشتی میں سوراخ ہوجائے یا کردیا جائے، سوراخ سے پانی اندر داخل ہوجاتا ہے، پھر وہ اپنی طاقت کے بل بوتے سے کشتی کو ڈبو دیتا ہے۔ اسی طرح غلط فیصلے چاہے کوٹا سسٹم ہو، اس کے ساتھ جڑے ہوئے انتقام اور اقتدار کی طاقت کا نشہ ہو یہ چیزیں حکومت کی کشتی کو ڈبو دیتی ہیں۔

آپ غور کریں بنگلا دیش آزاد ہونے کے بعد ترقی کی منازل طے کرتا جارہا تھا، ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق حسینہ واجد کے دور حکومت میں ڈھائی کروڑ افراد غربت کی لکیر سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے آپ ورلڈ بینک کی ویب سائٹ پر جا کر دیکھ سکتے ہیں یہاں لکھا ہے کہ بنگلا دیش جو 1971ء میں غریب ملک تھا 2015ء میں ترقی کرکے لوئر مڈل انکم اسٹیٹس حاصل کرنے میں کامیاب ہوا اور یہ 2026ء تک اقوام متحدہ کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہونے جارہا ہے۔ حسینہ واجد کے دور میں کئی ترقیاتی منصوبے مکمل ہوئے ان میں سے ایک پدما برج جو 2 ارب 90 کروڑ روپے کی لاگت سے مکمل ہوا مگر سوچنے کی بات ہے شاندار کارکردگی اور معاشی ترقی کے باوجود بنگلا دیش کے عوام اُن کے خلاف کیوں ہوگئے؟ سرکاری ملازمتوں میں فریڈم فائٹرز کا کوٹا بھی غم و غصے کی ایک وجہ ہوسکتی ہے لیکن اُن کی آمرانہ طرزِ حکومت اور سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگانا زوال کے حقیقی اسباب ہیں۔ بنگلا نیشنل پارٹی کی سربراہ بیگم خالدہ ضیا کو کرپشن کیس میں 5 سال قید کی سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا۔ جماعت اسلامی ان کی اتحادی جماعت تھی انہیں کچلنے کے لیے انٹرنیشنل ٹربیونل تشکیل دے کر 1971ء کی جنگ کے دوران پیش آنے والے واقعات میں جماعت اسلامی کے رہنمائوں کا ٹرائل شروع کردیا گیا اور جماعت کے 6 رہنمائوں کو جنگی الزامات کے تحت سزائے موت سنا دی گئی۔ 2014ء میں عبدالقادر ملا کو پھانسی دے دی گئی۔ ڈپٹی سیکرٹری جنرل قمرالزماں کو اپریل 2015ء میں سینٹرل جیل ڈھاکا میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ میر قاسم علی کو ستمبر 2011 میں غازی پور جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ ان کے بیٹے میر احمد بن قاسم جو والد کا مقدمہ لڑ رہے تھے انہیں بھی لاپتا کردیا گیا۔ جماعت اسلامی کے 72 سالہ امیر مطیع الرحمن نظامی کو دس مئی 2016ء کو سولی پر چڑھا دیا گیا۔ غلام اعظم جن کی عمر 91 سال تھی انہیں 90 سال کی سزا سنا دی گئی اور یہ اسیری کے دوران شہید ہوگئے، ان کے بیٹے جو فوج میں بڑے عہدے پر فائز تھے لاپتا کردیا گیا۔ اسی طرح جماعت کے رہنما دلاور حسین سعیدی کو عمر قید کی سزا سنائی گئی وہ ڈھاکا جیل میں وفات پا گئے۔

حسینہ واجد کے برسراقتدار آنے کے بعد 600 افراد جبری طور پر لاپتا ہوئے۔ پاکستان کی سیاست پر نظر ڈالیں تو ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار میں آتے ہی پہلے سندھ میں کوٹا سسٹم کو نافذ کیا پھر اپنے مخالفین کو کچلنے یا دبانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، جس کی وجہ سے قومی اتحاد وجود میں آیا۔ بھٹو نے اپنی حکومت سے ایک سال قبل ہی قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا اعلان کیا اور چاروں صوبوں میں برتری حاصل کی مگر اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی این اے نے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات لگا کر اس کے خلاف ملک گیر تحریک شروع کردی جس کی قیادت مفتی محمود صاحب کررہے تھے۔ ان کے ساتھ ائرمارشل اصغر خان، پیر علی مردان شاہ، پیر پگاڑا، سردار قیوم، اشرف خان، نواب زادہ نصر اللہ خان شامل تھے۔ ان کی مثالی قیادت نے زبردست تحریک چلائی جس کی وجہ سے بگڑتی ہوئی صورت حال کو دیکھتے ہوئے مارشل لا لگادیا اور اقتدار جنرل ضیا الحق نے سنبھال لیا۔ اُس کے بعد ضیا الحق صاحب نے میاں نواز شریف کو سیاسی میدان میں اُتارنے کے لیے کھڑا کیا وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ بھٹو کو پھانسی دے کر پیپلز پارٹی کو ختم کردیا مگر بھٹو ایک نظریہ دے کر گیا اس نے مزدوروں کو زبان دی وہ ایک عوامی لیڈر تھا۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے والد کے مشین کو جاری رکھا، تکالیف برداشت کیں اور ایک بار پھر اس قوم نے اُن کو وزیراعظم بنا کر دم لیا۔ کوٹا سسٹم بھٹو صاحب کی سب سے بڑی غلطی تھی جس کی سزا موجودہ نسل بھگت رہی ہے۔ بھٹو کے بعد کئی لوگ اقتدار میں آئے مگر یہ منحوس کوٹا سسٹم کسی نے ختم کرنے کی کوشش نہیں کی۔

الطاف حسین نے مہاجر قوم سے جو عزت حاصل کی تھی اُس میں الگ صوبے کے علاوہ کوٹا سسٹم کا خاتمہ بھی شامل تھا۔ اس نعرے کی بدولت انہوں نے کراچی پر برسوں حکمرانی کی جس طرح سے بھٹو کے روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے پر آج بھی پیپلزپارٹی کا سندھ پر راج ہے۔ اس راج نے کراچی کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ الطاف حسین اتنی کامیابی کے باوجود کوٹا سسٹم ختم نہیں کروا سکے اور لندن جا کر بیٹھ گئے، جن لوگوں نے اُن کا ساتھ چھوڑ کر الگ متحدہ بنائی افسوس کہ انہوں نے بھی کوٹا سسٹم کے خاتمے کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ میں حافظ نعیم الرحمن صاحب سے اپیل کرتا ہوں کہ جس طرح سے آپ نے بجلی اور آئی پی پیز کے ساتھ عوامی مسائل کی جنگ لڑ رہے ہیں اُس سے فارغ ہو کر کوٹا سسٹم کے خاتمے کے لیے بھی جنگ کریں۔ مجھے یہ معلوم ہے ان نااہل سیاست دانوں نے طالب علموں کو رنگ برنگے جھنڈوں اور نعروں میں اُلجھا کر رکھا ہوا ہے۔ فری لیپ ٹاپ دے کر اُن پر احسان کیا جاتا ہے، اداروں میں تعلیم کا بیڑہ غرق کرنے والے اور کوئی نہیں یہی مراعات یافتہ لوگ ہیں، آج کراچی کے کوٹے پر بھی سندھ سے لاکر بھرتی کیا جارہا ہے، اُن کے کراچی کے جعلی ڈومیسائل بنا کر کراچی کے نوجوانوں کا حق کھایا جارہا ہے۔

آخری میں ایک نصیحت کہ شیخ حسینہ واجد اور عوامی لیگ کا حال دیکھ لو بس ایک فرق ہے کہ بنگالی ایک قوم ہیں اور تم کو ان نااہل حکمرانوں نے ہجوم میں تبدیل کردیا ہے، اگر تم ایک قوم نہیں بنے تو یہ ظلم تمہارا پیچھا نہیں چھوڑے گا اور کراچی والے اکثریت کے بجائے اقلیت میں شمار ہوجائیں گے۔

ابن آدم کہتا ہے کراچی کا پورا انفرا اسٹرکچر تباہ ہوچکا، کراچی کا تعلیم یافتہ نوجوان ایک نوکری کے حصول کے لیے ٹھوکریں کھا رہا ہے، گریڈ 1 کی نوکری دلوانے کے لیے 5 لاکھ تک رشوت طلب کی جارہی ہے، رپورٹ کے مطابق یہ کام جیالے کررہے ہیں۔ ابھی وقت ہے فیصلہ کرلیں تو اچھا ہوگا کیونکہ ناانصافی ہی انقلاب کی بنیاد بنتی ہے۔ پاکستان صدا رہے سلامت۔