حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی تہران میں اسرائیلی حملے میں شہادت نہ صرف فلسطین بلکہ پوری اْمت مسلمہ کا نقصان ہے اور اس المناک واقعے پر پوری مسلم دنیا نے شدید دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے، ان شاہ اللہ وقت ثابت کرے گا، ان کا یہ مشن رْکا نہیں بلکہ اسماعیل ہنیہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فلسطین کا ہر بچہ اس یہودی ریاست کے خلاف اپنے خون کا ایک ایک قطرہ بیت المقدس کی آزادی کے لیے قربان کرنے کو تیار ہے اور ان یہودیوں کی سازش کو کبھی پورا ہونے نہیں دے گا، کیونکہ اسماعیل ہنیہ ایک فرد نہیں ایک تحریک کا نام ہے۔
اسماعیل ہنیہ کی شہادت پوری ایرانی حکومت لیے نہ صرف باعث ندامت و شرمندگی ہے بلکہ ایرانی انٹیلی جنس فورسیز کی صلاحیتوں پر بھی سوالیہ نشان ہے، ایران کے بلند و بانگ دعوے کے باوجود آج پندرہ روز گزر جانے کے بعد بھی کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی، اور نہ پہنچے گی، کیونکہ اس سے قبل بھی ایران کی سر زمین پر ایسے کئی حادثات رونما ہوئے ہیں، ایرانی حکومت نے اسرائیل کی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کو اس کا ذمے دار ٹھیرایا تھا، مگر نتیجہ صفر۔ جنرل قاسم سلیمانی جو ایران کے سپاہ پاسداران کے کمانڈر تھے ان کو جنوری 2020 میں بغداد میں امریکی ڈرون حملے سے شہید کیا گیا، ایران نے کیا امریکا سے بدلہ لے لیا، یا پھر محسن فخری زادہ جو ایران کے جوہری پروگرام کے سائنسدان تھے، نومبر 2020 میں تہران کے قریب ایک حملے میں قتل کیے گئے اس قتل کو بھی ایرانی حکومت نے اسرائیل کو مورود الزام ٹھیرایا، تو کیا ایران نے اسرائیل سے بدلہ لے لیا، یا پھر داریو شرجانی جو ایران کے نیوکلیئر سائنسدان تھے ان کو بھی 2010 میں ایک کار بم دھماکے میں شہید کیا، ان کے قتل کے پیچھے بھی ایرانی حکومت نے اسرائیل کی انٹیلی جنس موساد کا ہاتھ بتایا، تو کیا ایران نے بدلہ لے لیا، ایسی بے شمار شہادتیں ہیں جو ایرانی سر زمین پر ہوئیں اور ان تمام شہادتوں کو ایران نے موساد کو مورد الزام ٹھیرایا، اس کے عوض پوری ایرانی حکومت جھوٹے نعرے اور کھوکھلے بیان کے سوا کچھ نہیں کر سکی، نہ آج تک ایرانی انٹیلی جنس ایجنسی ان شہادتوں کا کوئی سراغ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، مثال کے طور پر صادق سربازی ایرانی ماہر اقتصادیات تھے 2011 میں تہران میں شہید ہوئے، نتیجہ نامعلوم، ایرانی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر مصطفی قاسمی جن کو ایران میں گولی مار کر شہید کیا گیا، نتیجہ نامعلوم، مسعود علی محمدی یہ بھی نیو کلیئر سائنسدان تھے ان کو بھی 2010 میں تہران میں ایک موٹر سائیکل بم دھماکے میں شہید کیا گیا، نتیجہ نہ معلوم۔
ایک بار پھر تہران کی سر زمیں پر 31 جولائی 2024 کو اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر ایرانی حکومت اس شہادت پر اسرائیل حکومت پر الزام لگا رہی ہے اور پوری حکومت اسرائیل کے خلاف بیان بازی کے سوا کچھ نہیں کر رہی، اگر اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا اتنا ہی دکھ تھا تو سب سے پہلے اسرائیل کے سفارت کار کو بلا کر اس کو حکومتی موقف سے آگاہ کرتے اور اسرائیل میں موجود ایرانی سفارت خانے کو واپس بلاتے اور اسرائیل کے سفارت خانے کو بند کرنے کا فیصلہ صادر فرماتے تو بات کچھ سمجھ میں آتی، مگر یہ سب امریکا، اسرائیل، ایران، نورا کْشتی کے علاوہ کچھ نہیں لگتا۔ ایران پر الزام یہ لگایا جارہا ہے کہ مغرب کی دنیا سے اپنے اوپر لگی پابندیاں ہٹانے کے لیے اسماعیل ہنیہ کو اسرائیل یا خود اپنی انٹیلی جنس اداروں کے ذریعے مروا کر اسرائیل اور امریکا کو خوش کر نا تھا۔
دوسری طرف ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے وہ دعوے اور بیانات ایک چلے ہوئے کارتوس سے کم نہ نکلے جن میں انہوں نے اسرائیلی حکومت کو اس شہادت پر سخت نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسماعیل ہنیہ کے خون کا بدلہ لینا ایران کا فرض ہے، بلکہ تہران میں قم کی مسجد جمکران میں ایرانی روایت کے مطاق سْرخ پرچم بھی لہرایا گیا جو انتقام کی علامت سمجھا جاتا ہے، تو پھر انتقام لیجیے انتظار کس بات کا ہے، یا یہ علامتی سْرخ پرچم کیا صرف دکھاوا کے لیے لہرایا گیا ہے۔
محترم آیت اللہ خامنہ ای صاحب اْمت مسلمہ آپ سے سوال کرتی ہے کہ ہم اسماعیل ہنیہ کا خون کس کے ہاتھوں میں تلاش کریں؟ اگر آپ واقعی اسلامی ریاست کے مسلم حکمران ہیں تو اپنے قول و فعل اور دعوں کو پورا کر کے دکھائیں اگر ایسا نہ ہوا تو ایسے حکمرانوں کو حْرف عام میں منافق اور جھوٹا کہا جاتا ہے، جب تک آپ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا بدلہ نہیں لیں گے تو جان لیجیے، ایک روز آپ بھی نشانہ عبرت بن جائیں گے، کیونکہ ایران نہ صرف اپنی عزت گنواں چکا ہے، اور اسرائیل اور امریکا آپ کی دھمکیوں سے باز آنے والے نہیں، پھر اس قسم کے واقعات کا نہ روکنے والا سلسلہ ایرانی قوم کا مقدر ہو گا۔