مسلم معاشرے اور ترجیحات کا مسئلہ

282

زندگی میں ترجیحات کا مسئلہ اتنا اہم ہے کہ انسان وہی کچھ ہوتا ہے جو اس کی ترجیحات ہوتی ہیں، اور مسلم معاشروں کا ایک بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ ان میں بسا اوقات ترجیحات کا درست تعین نہیں ہوپاتا جس سے فکر و عمل کا نکتہ ماسکہ (Focus) بدل کر رہ جاتا ہے، چنانچہ جہاں زیادہ توانائی صرف ہونی چاہیے وہاں کم توانائی صرف ہوتی ہے، اور جہاں نسبتاً کم توانائی کی ضرورت ہوتی ہے وہاں زیادہ توانائی بروئے کار آجاتی ہے۔ اس سے جیسے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں ان کا اندازہ دشوار نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن بدقسمتی سے مسلم معاشروں میں یہ مسئلہ بھی اس لیے سنگین ہوگیا ہے کہ ہم ترجیحات کے عدم تعین یا غلط تعین سے پیدا ہونے والے مسائل کا بھی ادراک نہیں کر پا رہے ہیں۔ بہرحال آج ہمارا موضوع اسی طرح کا ایک مسئلہ ہے۔

یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے مذہب میں عریانی و فحاشی کی سخت مذمت کی گئی ہے اور اہلِ ایمان سے کہا گیا ہے کہ بے حیائی کے پاس بھی نہ پھٹکیں، لیکن حدیث شریف میں آیا ہے کہ ہرامت کا ایک فتنہ ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔ ظاہر ہے اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ عریانی و فحاشی اور جنسی انحرافات فتنہ نہیں۔ وہ ہیں، لیکن ان کی حیثیت امتِ مسلمہ کے لیے سب سے بڑے فتنے کی نہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں کو جس فتنے سے سب سے زیادہ نقصان کا احتمال ہے وہ مال وزر ہے۔ ہمارے مذہبی لٹریچر میں فتنے کی تعریف و تشریح موجود ہے لیکن یہاں ہمیں اس سے سروکار نہیں، قرآن مجید میں مختلف امتوں اور ان کے فتنوں کا ذکر موجود ہے جو ہمارے مفہوم کی ادائیگی کے لیے کافی ہے۔ مثلاً قرآن پاک میں ایسی امت کا ذکر ہے جو ناپ تول میں کمی کے فتنے میں مبتلا تھی اور اُسے اس فتنے کی وجہ سے تباہ کیا گیا۔ قرآن مجید میں ایسی قوم کا ذکر ہے جو ہم جنس پرستی کے فتنے میں گرفتار تھی اور یہی فتنہ اُس کے صفحۂ ہستی سے مٹ جانے کا سبب بنا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ ارشادِ پاک کے معنی ہیں کہ امتِ مسلمہ دوسری برائیوں میں مبتلا تو ہوسکتی ہے لیکن ان کا دائرۂ مضمرات دولت کے دائرے کے مضمرات سے بہرحال محدود ہوگا۔ دیکھا جائے تو مسلمانوں کی پوری تاریخ اور خاص طور پر عرب دنیا کا احوال مال کے فتنے پر گواہ بنا ہوا ہے، لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان سمیت پوری مسلم دنیا میں مال کے فتنے پر کوئی توجہ ہی نہیں ہے۔ البتہ عریانی و فحاشی اور جنسی انحرافات کے فتنے پر بھرپور توجہ دی جارہی ہے۔ اخبارات اس فتنے کے خلاف بیانات سے بھرے ہوئے ہیں، مساجد میں خطیب اس سلسلے میں اپنا زورِ بیان صرف کررہے ہیں۔ اس مسئلے پر کتابوں اور کتابچوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اس کے مقابلے پر مال، جسے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کا فتنہ قرار دیا ہے، مفکرین و مصلحین میں کوئی بڑا ردعمل پیدا کرتا نظر نہیں آتا۔

اگرچہ عریانی و فحاشی اور جنسی انحرافات کسی خارجی محرک کے محتاج نہیں، لیکن ایسا لگتا ہے جیسے مسلم فکر نے یہ طے کرلیا ہے کہ ان چیزوں کا معاشی اور سماجی محرکات سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ حالانکہ دیکھا جائے تو عریانی و فحاشی اور جنسی انحرافات کی اکثر صورتیں دولت کے کلچر کا حصہ ہیں۔ یعنی یہ فتنہ بھی دولت کے فتنے کی دین ہے، لیکن ہم ’’نتیجے‘‘ کی مذمت کرتے ہیں اور ’’سبب‘‘ کو کچھ نہیں کہتے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس سلسلے میں دولت کا حوالہ آتا ہی نہ ہو۔ دولت کا حوالہ آتا ہے، لیکن اس کی مرکزیت پر شاذ و نادر ہی کوئی اصرار کرتا نظر آتا ہے، حالانکہ ان امور کے سلسلے میں دولت کی مرکزیت فیصلہ کن اہمیت کی حامل ہے۔ یہ اہمیت ہمیشہ سے تھی تاہم فی زمانہ عریانی و فحاشی دولت کے کلچر کا ناگزیر تقاضا بلکہ اس کا ’’حسن‘‘ بن کر رہ گئے ہیں۔

ہمارے علما اور دانشوروں کا کہنا ہے کہ جدید ذرائع ابلاغ اور خاص طور پر ٹیلی ویژن سے پیش کیا جانے والا مواد عشق و محبت کی داستانوں کو فروغ دے رہا ہے اور ہمارے ڈرامے ان چیزوں کے تربیتی کورس کا کام کررہے ہیں۔ یہ ایک افسوسناک اور قابلِ مذمت بات ہے، لیکن ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ اتھلی اور پست قسم کی جسمانی محبت میں بھی ایک انسان ہی دوسرے انسان کے لیے اہم ہوتا ہے۔ اس کی کشش انسان ہی کی کشش ہوتی ہے، لیکن دولت انسان کے مقابلے پر ایک مُردہ شے ہے، اور دولت کی پرستش ایک مُردہ چیز کی پوجا ہے جو نفسانی خواہشات کی پرستش سے کہیں زیادہ بدتر بات ہے، اس لیے کہ اس کا تعلق کچھ نہ کچھ انسانی جذبات و احساسات سے ہوتا ہے لیکن دولت کی پوجا تو انسان کو ہر انسانی احساس اور جذبے سے عاری کردیتی ہے۔ یہ امر بھی کوئی راز نہیں کہ جنسی انحرافات سے پیدا ہونے والی ہلاکت کا دائرہ محدود ہوتا ہے۔ اس سے عملاً دو یا اس سے کچھ زیادہ افراد تباہ ہوتے ہیں، لیکن دولت خواہ ایک ہی شخص کے ہاتھ میں ہو ، اس سے بے شمار لوگ متاثر ہوتے ہیں اور ایک بڑے دائرے میں تباہی پھیلتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دولت کی طاقت بے پناہ ہے، اس سے آپ ہزار چیزیں، یہاں تک کہ انسان کو بھی خرید سکتے ہیں۔ دولت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ یہ چہرہ رکھنے کے باوجود ایک بے چہرہ طاقت ہے۔ یہ مرئی عنصر ہے لیکن اس کے باوجود غیر مرئی طاقت کا کردار ادا کرتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مال اور اس کا فتنہ ہماری توجہ کا زیادہ مستحق ہے، لیکن ایسا نہیں ہورہا۔ کیوں نہیں ہورہا؟ اس کی بہت سی وجوہ ہیں۔

دوسرے مسلم ملکوں کا احوال تو ہمیں معلوم نہیں لیکن برصغیر کا معاملہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں عریانی و فحاشی اور بے راہ روی کی بحث زیادہ شدت سے اُس وقت شروع ہوئی جب ہمارے یہاں مغربی تہذیب کے اثرات نے کام دکھانا شروع کیا۔ چونکہ ان اثرات کا ظہور سب سے پہلے سماجی دائرے میں ہوا، اس لیے ردعمل کی ایک صورت ازخود متعین ہوتی چلی گئی۔ مثلاً خواتین گھروں سے باہر نکلنے لگیں، ان میں بے پردگی پھیلنے لگی، یا مردوں نے انگریزی تعلیم حاصل کرنا شروع کی اور وہ مغربی لباس زیب تن کرنے لگے۔ کسی زمانے میں یہ چیزیںبھی بڑے انحرافات کی حیثیت رکھتی تھیں۔ ہم نے ایک دیہی علاقے میں خود دیکھا ہے کہ شٹل کاک قسم کا برقع اوڑھنے والی خواتین موجودہ برقع اوڑھنے والی خواتین کو ماڈرن ازم کا مظہر سمجھتی ہیں اور اُن کے نزدیک یہ بھی ایک قسم کا انحراف تھا۔ بہرحال اس صورتِ حال سے سوچنے سمجھنے والے لوگوں اور علما نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مغربی تہذیب سب سے زیادہ شرم و حیا کے اسلامی تصور کو نقصان پہنچا رہی ہے، اور جو چیزیں اس کا سبب بن رہی ہیں وہی سب سے زیادہ خطرناک ہیں۔ وہ دن اور آج کا دن، ردعمل کی یہ نوعیت نہیں بدلی حالانکہ مغربی تہذیب نے ہمارے زیادہ بنیادی تصورات پر حملہ کردیا ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان حملوں کا زیادہ نوٹس لیں، لیکن ایسا نہیں ہوپا رہا۔ ہم اپنے ابتدائی ردعمل اور Conditioning کے اسیر ہوگئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ عریانی، فحاشی اور جنسی انحرافات کے خلاف جہاد نہ کیا جائے… یہ جہاد جاری رہنا چاہیے لیکن ہمیں ان انحرافات کے مرکز پر حملہ آور ہونا چاہیے جو مال کے فتنے کے سوا کچھ نہیں۔ ہمارے علما اور دانشوروں کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ اُن کے ردعمل سے مسلم عوام الناس میں ایک ایسا ذہنی سانچہ تشکیل پا رہا ہے جو ایک محدود دائرے میں بہت اہم اور بہت قیمتی ہے لیکن یہ سانچہ مسلم امت کو درپیش مسائل کے چیلنج کے مقابلے کے لیے نہ صرف یہ کہ کفایت نہیں کرسکتا بلکہ یہ بہت سے حقائق کا پردہ بنتا جارہا ہے اور وہ وسیع ذہنی افق نمودار نہیں ہو پارہا جو مسلمانوں کی میراث رہا ہے۔