اسلام آباد: سینیٹ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی پارٹی لیڈر اور خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ 9 مئی کے مجرموں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کے راستے میں سپریم کورٹ کا حکم امتناعی دیوار بنا ہوا ہے۔
عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کو یہ حکم دئیے آٹھ ماہ گزر چکے ہیں کہ ہماری اجازت کے بغیر کسی کو سزا نہیں دینی۔ برطانیہ میں 29 جولائی کو واقعہ ہوا، ایک مہینہ بھی نہیں ہوا اور سینکڑوں لوگ جیل جاچکے ہیں، برطانیہ میں عدالتیں چوبیس گھنٹے کھلی ہیں اور ہماری عدالتیں چھٹی پر ہیں۔ یہ بات انہوں نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
ان کا کہنا تھا کہ اْسی آرمی ایکٹ کے تحت فیض حمید کے خلاف کارروائی ہورہی ہے جس کے تحت عمران خان کے دور میں 25 لوگوں کے خلاف ٹرائل ہوئے اور تین کو سزائے موت بھی ہوئی تھی جو ابھی تک جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ اْس وقت اوپن ٹرائل کی بات کرنی چاہیے تھی۔ آج اوپن ٹرائل کی بات معاملے کو الجھانے اور دھیان بٹھکانے کے لئے ہے۔
ایک سوال پر سینیٹر عرفان صدیقی نے کہاکہ فیض حمید جس جس کا نام لیں گے، وہ کٹہرے میں ہوگا۔ آئی ایس پی آر کے پریس ریلیز کے مطابق ایک معاملہ ٹاپ سٹی کا ہے لیکن دوسرے کے بارے میں یہی منطقی نتیجہ نکلتا ہے کہ یقینا اس کا تعلق 9 مئی سے بھی ہے۔ ٹرائل کے دوران شواہد کی روشنی میں جب اْن سے پوچھا جائے گا تو اْن کے جواب کے مطابق ہی دیگر کے خلاف بھی کارروائی کا دائرہ بڑھے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ 9 مئی ریاست کے وجود پر حملہ تھا، یہ نہایت سنگین معاملہ ہے۔ ریاست کی عمل داری کی ذمہ داری عدلیہ سمیت تمام اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں اکبر خان، بھٹو، ضیاء سمیت کئی سازشیں موجود ہیں لیکن 9 مئی وہ پہلی سازش تھی جو آدھی کامیاب ہوئی۔ اس سازش کے تین مراحل تھے۔