قرآنِ کریم میں ہے: ’’اور (اے رسولِ مکرّم!) یاد کیجیے! جب آپ کے ربّ نے بنی آدم کی پشتوں سے اُن کی نسل کو نکالا اور ان کو خود اُن کے نفسوں پر گواہ بناتے ہوئے فرمایا: کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں، سب نے کہا: کیوں نہیں! ہم (تیری ربوبیت کی) گواہی دیتے ہیں (گواہ اس لیے بنایا کہ) کہیں تم قیامت کے دن یہ نہ کہو ہم اس سے بے خبر تھے یا تم یہ (نہ) کہو: شرک تو ابتداء ً ہمارے باپ دادا نے کیا تھا اور ہم تو ان کے بعد اُن کی اولاد ہیں، تو کیا باطل پرستوں کے فعل کی وجہ سے ہمیں ہلاک کردے گا اور ہم اسی طرح تفصیل سے آیتیں بیان کرتے ہیں تاکہ وہ حق کی طرف لوٹ آئیں‘‘۔ (الاعراف: 172-174)
قرآنِ کریم کی اس آیۂ مبارکہ کی عبارۃ النص تو یہی ہے: ’’بنی آدم کی پشتوں سے اُن کی نسل کو نکالا‘‘، لیکن ظاہر ہے: عہد ِ اَلَست کے وقت ساری نسل ِ انسانی پیدا نہیں ہوئی تھی، قیاس یہی ہے: آدمؑ کی تخلیق کے بعد اُن کی پشت سے ساری اولادِ آدم کی ارواح کو نکالا اور اُن سے عہد لیا اور اللہ تبارک وتعالیٰ اس بات پر قادر ہے، اس حدیث پاک سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے:
’’سیدنا عمر بن الخطابؓ بیان کرتے ہیں: سورۃ الاعراف کی اس آیت کے متعلق میں نے نبیؐ سے سوال کیا: رسول اللہؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدمؑ کو پیدا کیا، پھر ان کی پشت پر اپنا دایاں ہاتھ پھیرا، پھر اس پشت سے اولاد نکالی، پھر فرمایا: ان کو میں نے جنت کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ اہل ِ جنت کے عمل کریںگے، پھر ان کی پشت پر ہاتھ پھیرا اور ان سے ایک اولاد نکالی اور فرمایا: میں نے ان کو دوزخ کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ اہل ِ دوزخ کے عمل کریں گے، ایک شخص نے پوچھا: یارسول اللہ! پھر عمل کی کیا حیثیت ہے، رسول اللہؐ نے فرمایا: بے شک اللہ جب کسی بندے کو جنت کے لیے پیدا فرماتا ہے تو اس سے اہل ِ جنت کے عمل کراتا ہے حتیٰ کہ وہ شخص اہل ِ جنت کے اعمال پر مرتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کردیتا ہے اور جب کسی بندے کو دوزخ کے لیے پیدا کرتا ہے تو اس سے اہل ِ دوزخ کے عمل کراتا ہے حتیٰ کہ وہ اہل ِ دوزخ کے اعمال پر مرتا ہے، پھر اللہ اس کو دوزخ میں داخل کردیتا ہے‘‘۔ (سنن ترمذی) دوسری حدیث میں ہے:
’’سیدنا علیؓ بیان کرتے ہیں: ایک دن نبیؐ تشریف فرما تھے اور آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جس سے زمین کو کُرید رہے تھے، پس آپؐ نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور فرمایا: تم میں سے کوئی ذی روح نہیں مگر جنت اور دوزخ میں اس کا مقام (پہلے سے) لکھا جاچکا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! پھر ہم عمل کس لیے کریں (جب سب کچھ لکھ دیا گیا ہے تو ہم اسی پر) توکل نہ کریں، آپؐ نے فرمایا: نہیں! تم عمل کیے جائو، ہر شخص کو جس انجام کے لیے پیدا کیا گیا ہے، اُس کے حصول کو اُس کے لیے آسان کردیا گیا ہے، پھر آپؐ نے سورۃ اللیل کی یہ آیات پڑھیں: ’’تو جس نے (اپنا مال اللہ کی راہ میں) خرچ کیا اور تقویٰ اختیار کیا اور حُسن ِ عاقبت کی تصدیق کی تو ہم عنقریب اس کے لیے آسانی (کی منزل جنت) کے حصول آسان کردیں گے اور جس نے بخل کیا اور (خالق سے) بے نیاز ہوگیا اور حُسن ِ عاقبت کی تکذیب کی، اس کے لیے ہم دشوار (منزل کے حصول کو) آسان کردیں گے‘‘۔ (اللیل: 6-10)، (مسلم)
ان احادیث ِ مبارکہ کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ چونکہ تقدیر پہلے سے طے کرلی گئی ہے، اس لیے انسان اس کا پابند ہے، اُس سے انحراف کی مجال نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ انسان اور اس کی فطرت کا خالق ہے، سوجو کچھ انسان کو اپنے اختیار اور صوابدید سے کرنا تھا، اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے علم ِ ازلی سے اُسے لکھ دیا اور جس طرف اُس کا طبعی میلان تھا، اُن راہوں کو اُس کے لیے آسان کردیا۔
اس ’’عَہْدِ اَلَسْت‘‘ پر بعض مفسرین کرام نے بحث کی ہے: رُبوبیّتِ باری تعالیٰ کا یہ اقرار اضطراری تھا یا اختیاری، اس کے حجت ہونے کا تقاضا یہ ہے: اللہ تعالیٰ نے اپنے خطاب کو سمجھنے کے لیے ان میں عقل پیدا فرمائی، جو اگرچہ اس عالَم ِ آب وگل میں آنے کے بعد انہیں یاد نہ رہا، لیکن کہیں نہ کہیں اُن کے تحت الشعور (Sub Conscious) میں یہ پیوست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان نے ہر دور میں کسی نہ کسی مافوقَ الفطرت یا مادّی اعتبار سے بالاتر ہستی کا اقرار کیا ہے یا یہ دیکھا کہ کسی چیز میں نفع یا نقصان پہنچانے کی غیر معمولی طاقت ہے، اُسے معبود مان لیا، کسی نے سورج کی پرستش کی، کسی نے ستاروں کو پوجا، کسی نے آگ کو معبود بنالیا، کسی نے فرضی اوتار کا تصور تخلیق کرلیا، کسی کو اور کچھ نہ سوجھا تو اُس نے اپنے ہاتھ سے بت تراش کر اُس کی پرستش شروع کردی، کسی نے خود زمانے کو مؤثر مان لیا، ہمارے ہاں ایسے لوگ دہری کہلاتے ہیں۔
حدیث پاک میں ہے: ’’نبیؐ نے فرمایا: ہر بچہ (دین ِ) فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اُس کے ماں باپ اُسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں‘‘۔ (بخاری) الغرض اسلام کا یہ تصور نہیں ہے کہ انسان موروثی طور پر پاپی یا گنہگار ہوتا ہے، بلکہ ہر بچہ فطرتِ سلیم پر پیدا ہوتا ہے، بعد میں ماحول اُسے بناتا یا بگاڑتا ہے۔ لیکن جس کی فطرتِ اصلی سالم رہتی ہے تو وہ کسی نہ کسی مرحلے پر اپنی اصل کی طرف پلٹ آتا ہے۔
یہ سطور میں نے اس لیے لکھیں: اگرچہ امریکا اور اہل ِ مغرب نے اپنی زندگیوں اور اپنے اجتماعی نظام سے اِلہامی ہدایت کو خارج کردیا ہے، اُن کا نظریہ ہے کہ انسان کو اپنی انفرادی یا اکثری یا اجتماعی دانش سے اپنے خیر وشر کا فیصلہ کرنے کا خود حق حاصل ہے۔ لیکن کہیں نہ کہیں فطرت میں کوئی سلگتی ہوئی چنگاری باقی رہ جاتی ہے، چنانچہ جب ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو اس نے کہا: ’’مجھے صرف خدا نے بچایا ہے‘‘، لیکن اس کے باوجود لوگ اُس خدا کی ہدایات دستیاب ہونے کے باوجود قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بیان فرمایا: ’’(بھلا بتائو تو سہی!) آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا اور تمہارے لیے آسمانوں سے پانی کس نے اُتارا، تو ہم نے اُس سے بارونق باغات اُگائے، تم میں یہ طاقت نہ تھی کہ تم ان (باغات) کے درخت اُگاتے، کیا اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہے، (نہیں!) بلکہ وہ لوگ راہِ راست سے تجاوز کر رہے ہیں، (بتائو!) زمین کو جائے قرار کس نے بنایا اور (کون ہے جس نے) اِس میں دریا رواں دواں کردیے اور زمین کو برقرار رکھنے کے لیے مضبوط پہاڑ (لنگر کی طرح) گاڑ دیے اور (میٹھے اور کھارے) دو سمندروں کے درمیان آڑ پیدا کردی، کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے، (نہیں!) بلکہ ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے، (بھلا بتائو!) جب عاجز ودرماندہ اُسے پکارتا ہے تو کون ہے جو اُس کی فریاد کو سنتا ہے اور اس سے تکلیف کو دور کردیتا ہے اور تم کو زمین میں پہلوں کا جانشین بناتا ہے، کیا اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہے (ہرگز نہیں)، تم لوگ بہت کم نصیحت کو قبول کرتے ہو، (بتلائو تو سہی!) کون ہے جو تم کو خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں راستہ دکھاتا ہے اور کون ہے جو اپنی (بارانِ) رحمت سے پہلے ہی خوش خبری دینے والی ہوائیں بھیجتا ہے، کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے، اللہ اُن سے بہت بلند ہے جن کو وہ اللہ کا شریک ٹھیراتے ہیں‘‘۔ (النمل: 60-64)
الغرض شیطان تو ازل سے انسان کا دشمن ہے، ہر دور میں اُس کے تزویری حربے جاری رہتے ہیں، مگر موجودہ دور میں سوشل میڈیا اُس کا سب سے مؤثر حربہ ہے، گمراہی میں مبتلا ہونے اور اس کو پھیلانے کے اسباب بے حد وبے حساب ہیں، ایسے میں وہ لوگ قابل ِ قدر اور خوش نصیب ہیں جو شیطنت کی اس آگ کے الائو کے درمیان رہتے ہوئے اپنے دین وایمان کی حفاظت کرلیتے ہیں، کاش کہ ٹرمپ جیسے لوگ اُسی خدا کو اُس کی تمام قدرتوں اور اختیارات سمیت مان لیں، جس کے بارے میں اُس نے کہا ہے: ’’وہ صرف خدا ہی ہے جس نے میری جان بچائی‘‘۔