انقلاب کا آغاز بنگلا دیش سے…!!

339

فرمان ربّی ہے کہ حق آتا ہے تو باطل بھاگ جاتا ہے اور باطل ہے ہی بھگوڑا۔ اس کی عملاً تفسیر بنگلا دیش کے اندر حالیہ دنوں میں عالم تمام نے دیکھی کہ گرم لہو جوانوں کا میدان میں اُترا اور جانوں کے نذرانوں سے اپنے عزم کو جلا بخشی تو وزیراعظم حسینہ واجد کے لیے راہ فرار کے سوا کوئی راہ نہ بچی اور بھارت ہی کی گود اس کو مل سکی۔ جن قوتوں امریکا، برطانیہ پر حسن ظن حسینہ کو تھا وہ پتے ہوا دینے لگے اور یوں ’’پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا‘‘۔ 2009ء سے مسلسل چلے آنے والا دھونس، دھاندلی، جبر کا اقتدار نوجوانوں کے قدموں تلے ڈھیر ہوگیا۔ 14 جولائی کو حسینہ واجد نے اپنی اشتعال انگیز تقریر میں ظالمانہ کوٹا سسٹم کے خلاف سراپا احتجاج طلبہ اور نوجوانوں کو ’’رضا کار‘‘ کہہ کر حقارت سے پکارا تھا۔ انہوں نے اس بدبخت کا دھڑن تختہ کردیا۔

حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف اس تحریک نے 1977ء کی پاکستان میں چلنے والی تحریک نظام مصطفی کی یاد تازہ کردی جو فاسٹ حکمران کے خلاف قومی اتحاد نے چلائی تھی جس نے بھٹو کا دھڑن تختہ کیا گیا۔ 1977ء کی پاکستان کی تحریک نظام مصطفی اور بنگلا دیش کی 2024ء کی تحریک دونوں کامیاب ہوئیں، ظالم حکمرانوں کا دور ختم ہوا۔ مگر دونوں تحریکوں میں بنیادی فرق یہ رہا کہ 77ء کی تحریک 9 جماعتوں کے اتحاد کی تھی جبکہ 2024ء کی بنگلا دیش کی تحریک اتحاد کی کمزوری اور بوڑھی قیادت سے میدان پاک ہے۔ اور اس جوان قیادت نے حسینہ واجد کے فرار کے بعد وہ غلطی نہیں کی جو 1977ء کی تحریک نظام مصطفی کی قیادت کے ہاتھوں ہوئی کہ بھٹو سے نجات کے بعد اُس نے ضیا الحق کے مارشل لا کو حلوہ بانٹ کر قبول کیا تھا بلکہ بنگلا دیش کی تحریک کے قائد اور رابطہ کار ناہید اسلام نے تحریک کا ایک مرحلہ طے ہونے کے بعد گھر اور یونیورسٹی جانے کے بجائے اس تحریک کو دوام بخشنے کے لیے برقرار یوں رکھا کہ فوج کے اقتدار کے بجائے صاف ستھری حکومت کے قیام کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھ کر حکم دیا کہ حکومت کی تشکیل اُن کی پسند سے ہوگی اور یہ بات بہت حد تک انہوں نے منوا بھی لی اور ’’فوج کی نگرانی نہیں وہ بیرک میں ہوگی‘‘ کا نظریہ یوں اپنایا کہ تحریک کی قیادت جب اُن کے ہاتھ میں تھی تو حکومت بھی اُن کی سوچ کے مطابق ہوگی۔ یہ نہیں کہ حکومت وہ گرائیں اور پھر حکمراں اُن کے نظریے کا مخالف یا سرحدوں کی حفاظت کے ذمے دار آکر کریں۔ اُن کی سوچ اور طاقت کو بنگلا دیش فوج کے سربراہ جو حسینہ واجد رشتے دار ہیں نے بھی تسلیم کرکے آمنا صدقنا کہا، یہ نئے انقلاب کی نوید ہے کہ جو تحریک چلا کر حکومت کو عوام کی تائید سے گرائے حکمرانی اس کا حق ہے نہ کہ دو کی لڑائی میں تیسرا فریق فائدہ سمیٹے۔

2009ء کی بنگلا دیشی حکومت کا تسلسل ٹوٹ گیا تو پاکستان میں 2008ء سے دو خاندانوں کی حکومت کا تسلسل جو ایک ’’وقفہ‘‘ سے جاری ہے اب ٹوٹ کا مرحلہ زیادہ دور نہیں! پاکستان میں بھی تحریک اب جماعت اسلامی اکیلے ہی چلا رہی ہے، بنگلا دیش کی تحریک میں بھی سید مودودیؒ کی فکر نے کام کیا۔ خرم مراد نے جو برسوں قبل کہا تھا کہ برصغیر میں حقیقی انقلاب بنگال سے آئے گا اس کا نکتہ آغاز ہوچلا ہے یہ کڑی دھوپ پاکستان سے بھی ڈھلنے والی ہے ان شاء اللہ۔ ملک کی قیادت صالحین کے ہاتھوں میں آئے گی تو ملک اور قوم کی تقدیر بدلے گی۔ یہ انقلاب آکر رہنا ہے۔ ربّ کا فرمان ہے تم ہی غالب ہوگے اگر تم مومن ہو۔ اور سچ تو باطل کا بھیجا نکال دیتا ہے یہ بھی فرمان خداوندی ہے۔