طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے ٹی ٹی پی اور حکومت پاکستان کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ افغانستان کے سب سے زیادہ مشترکات جس ملک کے ساتھ ہین وہ پاکستان ہے اور ہم پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں مگر پاکستان میں دہشت گردی کی کسی بھی کارروائی سے معاملات خراب ہوجاتے ہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد کی پاکستان سے تعلقات کو بہتر بنانے کی تازہ خواہش کا اظہار دونوں طرف سے سرد مہری بلکہ کشیدگی کے ایک دور کے بعد ہوا ہے۔ اسی کشیدگی کے باعث دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی راہداریاں بار بار بند ہو رہی ہیں۔ پاکستان کی طرف سے دہشت گردی کے واقعات کی ذمے داری افغانستان پر عائد کی جارہی ہے اورکہا جاتا کہ ٹی ٹی پی افغانستان میں بیٹھ کر کارروائیاں منظم کرتی ہے اس کے برعکس طالبان کا کہنا ہے دہشت گردی کا مرکز پاکستان کے اندر قبائلی علاقوں میں ہے۔ اس طرح دونوں ملکوں میں خوش گوار تعلقات کی بیل منڈے نہیں چڑھتی۔
یہ ایک المیہ ہے کہ پاکستان نے جس خواب کی تعبیر کے لیے برسوں کام کیا جب وہ تعبیر ملی تو حالات داغ داغ اُجالا اور شب گزیدہ سحر کا منظر پیش کرنے لگے۔ پاکستان نے کابل میں ایک موافق حکومت کے قیام کی امید پر اپنی تزویراتی پالیسی تشکیل دی۔ پاکستان کو ہمیشہ سے خدشہ تھا کہ بھارت اس کو دو طرف سے گھیرنے کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے۔ مشرق کی سمت سے خود بھارت اور مغرب کی سمت سے بھارت زدہ افغانستان کے ذریعے یہ گھیرائو کیا جارہا ہے۔ اسی خوف کے تحت پاکستان نے اسٹرٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی تشکیل دی تھی جس کا ماٹو پاکستان سے باہر پاکستان کا دفاع تھا۔ مغرب کی سمت اس کا مفہوم افغانستان میں ایک پاکستان دوست حکومت کا قیام تھا۔ سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد کے بعد پاکستان کا یہ خواب پورا نہ ہوسکا۔ اس کے بعد مجاہدین کی ڈولتی لڑ کھڑاتی حکومتیں قائم ہوئیں مگر ان میں طاقت کا توازن ان فارسی بان مجاہدین کے حق میں ہوتا تھا جو پاکستان سے ناراض رہتے تھے۔ اسی منظر کو بدلنے کے طالبان کی لہر اُٹھا دی گئی اور یوں طالبان سارے ماحول اور منظر کو بدل ڈالا مگر نائن الیون کے بعد یہ ساری بساط لپٹ کر رہ گئی اور حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں میں بھارت نے افغانستان کو اپنا مرکز بنا کر ماضی کے تمام خواب اور منصوبے پورے کرنا شروع کیے۔ امریکی فوج کے انخلا کے ساتھ ہی یہ سار ڈھانچہ ریت کی دیوار کی طرح زمیں بوس ہوگیا تو پاکستان اپنے خواب کی تعبیر کے قریب پہنچ گیا۔
طالبان کے کابل میں فاتحانہ انداز سے داخل ہونے سے بیس برس کے زخم مندمل ہورہے تھے۔ اس فاتحانہ داخلے کے پندرہ اگست یعنی بھارت کے یوم آزادی کے دن کا انتخاب بھی اپنے اندر گہرے معانی رکھتا تھا۔ پھر اس کے کچھ ہی عرصہ بعد طالبان کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی غزنی میں محمود غزنوی کے مزار پر پہنچ کر ایک اور پیغام دے رہے تھے۔ پندرہ اگست کو بھارت جہاں اپنا جشن آزادی منارہا تھا وہیں وہ کابل کے ہاتھ سے نکلنے کا ماتم بھی منارہا ہے بالکل اسی طرح جیسا کہ آج ڈھاکہ سے نکالے جانے پر بھارت میں صف ِ ماتم بچھی ہوئی۔ پاکستان بھی اس جیت پر شوق اور وارفتگی میں اتنا مست تھا کہ اس کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی کے سربراہ جنرل فیض حمید کابل پہنچے اور قہوے کی پیالی ہاتھ میں لیے اپنی باضابطہ چہرہ نمائی کراتے ہوئے دنیا کو حالات کا دھارا بدل جانے کا پیغام دے رہے تھے۔ گویا کہ وہ دنیا کو پیغام دے رہے تھے کہ پاکستان نے افغانستان میں اپنا سب سے بڑا مقصد حاصل کر لیا ہے۔ یوں ایک بڑے خواب کی تکمیل کے بعد فریقین کو یہ خیال آیا کہ ٹی ٹی پی نامی ایک گروپ بھی حالات کی تہہ میں موجود ہے اس کا کیا کیا جانا ہے۔
طالبان حکمرانوں نے حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان معاملات طے کرانے کا بیڑا اُٹھا لیا اور یوں پس پردہ کوئی کھچڑی پکتی رہی۔ اس دوران پاکستان دہشت گردی کے واقعات سے آزاد ہوتا چلا گیا۔ طالبان کی پراسرار انداز میں واپسی ہونے لگی مگر اس دوران پاکستان کے حالات میں عدم استحکام کی فالٹ لائن متحرک ہو چکی تھی۔ امریکا نے آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان کی کلائی مروڑنے کی کھلی دھمکی سے پاکستان کو اپنے خوابوں کا بوجھ پٹخنے پر مجبور کیا تھا۔ طالبان پاکستانی ریاست کے بدلے ہوئے تیور دیکھتے ہوئے ٹی ٹی پی پر دبائو کم کرنے لگے تھے اور یوں حالات ایک بار پھر جنرل مشرف کے دور میں واپس پہنچتے جا رہے تھے۔ طالبان حکومت اور پاکستان کے درمیان اعتماد کے شیشے میں بال آچکا تھا۔ طالبان کو یہ خوف تھا کہ پاکستان پھر کسی جنگ میں شامل ہو کر اپنی سرزمین ڈرون حملوں کے لیے فراہم کرے گا۔ یہی خوف ٹی ٹی پی کے ردعمل کو زندہ رکھنے کا باعث تھا۔ پاکستان اور افغانستان اتنا قریب آکر بھی دور ہو گئے تھے۔ بعد کے حالات میں پاکستان میں دہشت گردی نے ایک بار پھر سراُٹھالیا اور دونوں ملکوں کے درمیان دوریاں بڑھتی چلی گئیں۔ ڈیورنڈ لائن پر فائرنگ کے تبادلے اور تجارتی پھاٹک باربار بند ہونے تک کشیدگی مختلف انداز سے پھیلتی چلی گئی۔ کشیدگی کے اس دور کے بعد اب ایک بار پھر طالبان کی طرف سے پاکستان کے ساتھ خوش گوار تعلقات پیشکش ہوئی ہے مگر یوں لگتا ہے کہ دونوں طرف اعتماد کے فقدان کے باعث فوری کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ایک بات سوچنے کی ہے کہ ٹی ٹی پی کے لوگ پاکستان میں چین کی سرمایہ کاری کو ہدف بناتے رہے مگر چین اس کے باوجود طالبان حکومت سے شیر وشکر ہے بلکہ ان کا سب سے بڑا عالمی سرپرست ہے۔ پندرہ اگست کو کابل کے سقوط کی تقریب میں چینی نمائندوں کی موجودگی اس تعاون اور تعلق کا ثبوت ہے۔ یہ معما حل ہوئے بغیر پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی حالیہ گرہوں کو سمجھا نہیں جا سکتا۔