اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) پاکستان میں خاندانوں کی سیاست کب ختم ہوگی؟ جسارت کے اس سوال کے جواب میں سیاسی رہنمائوں‘ سول سوسائٹی کے نمائندوں‘ تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ خاندانی سیاست ختم کر نے کے لیے ہر حکومت کو مدت پوری کرنے دی جائے‘ عوام کو بھی منظم ہونا ہوگا‘ آئین پر عملدرآمد سے ہی سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل حل ہوں گے‘ بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کو اقتدار سے بار بار ہٹانے سے خاندانی سیاست نے زور پکڑا‘ خاندانی سیاست کی بنیاد ایوب خان نے رکھی‘ پارلیمان میں اہل سیاست کو ہلڑ بازی سے فرصت نہیں۔ سابق اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے کہا کہ بنیادی طور پر سیاست عوام کے ساتھ رابطے اور ان کی خدمت کا نام ہے‘ جو بہتر انداز میں عوام کی نبض پر ہاتھ رکھے گا‘ عوام اسے ہی پسند کریں گے اور ووٹ بھی دیں گے‘ ہمارا ملک ایک جمہوری ملک ہے جس میں عوام ہی اس ملک کے حکمران ہیں‘ وہ اپنے ووٹ سے جسے چاہیں ووٹ دیں اور جسے چاہیں ووٹ نہ دیں‘ ہم خود کئی بار جیتے اور ہارے ہیں مگر ہم نے عوام کے ساتھ رابطہ ختم نہیں کیا‘ یہی بنیادی بات ہے جو عوام سے رابطے میں رہے گا‘ اس کی سیاست ختم نہیں ہوسکتی۔ تجزیہ کار اعجاز احمد نے کہا کہ جب تک خاندانوں کو غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے نشانہ بنایا جاتا رہے گا خاندانوں کی سیاست ختم نہیں ہوگی‘ یہ سوچ موجود تھی کہ بھٹو کی پھانسی کے بعد پیپلزپارٹی ختم ہوجائے گی لیکن یہ پارٹی آج بھی موجود ہے‘ اس سے سیاسی اختلاف اپنی جگہ‘ لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ پیپلزپارٹی اب ملکی سیاست میں نہیں رہی تو موقف تسلیم نہیں کیا جاسکتا‘ اگر بھٹو صاحب کو ووٹ کے ذریعے جمہوری انداز سے اقتدار سے الگ کیا جاتا تو آج ہوسکتا ہے کہ ملک میں پیپلزپارٹی تو ہوتی مگر اس پر بھٹو خاندان کا اثر نہ ہوتا‘ جب بھٹو گرفتار ہوئے تو ان کی پارٹی کے سینئر رہنمائوں نے پارٹی سے الگ ہوکر خود بھٹو خاندان کو موقع دے دیا کہ وہ پارٹی کی قیادت کے لیے سامنے آجائے‘ مصطفی کھر‘ مصطفی جتوئی‘ کوثر نیازی اور ان جیسے دیگر رہنما پارٹی سے الگ نہ ہوتے تو ہوسکتا ہے ان میں کوئی پارٹی کی قیادت کرتا لیکن ایسا نہیں ہوا‘ بھٹو کے بعد ان کی اہلیہ اور ان کے بعد بے نظیر بھٹو نے پارٹی قیادت سنبھال لی‘ عوام کے ایک طبقے میں تاثر تھا کہ بھٹو کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اس لیے لوگ بھٹو کی اہلیہ اور پھر ان کی بیٹی کے ساتھ چل دیے اب عدالت عظمیٰ نے صدارتی ریفرنس میں یہ رائے دی کہ بھٹو کو انصاف نہیں ملا لہٰذا اب آپ خود ہی دیکھ لیں کہ عوام میں بھٹو خاندان کے لیے ہمدردی اور بڑھ گئی ہے‘ یہی بات نواز شریف پر بھی صادق آتی ہے‘ عدالتوں نے پہلے انہیں سزا دی کہ انہوں نے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی‘ اس فیصلے نے نواز شریف کی سیاست کو اور زندہ کردیا‘ بعد میں حالات تبدیل ہوئے تو عدالتوں نے نواز شریف کو دی گئی سزا ختم کردی اور یہی وجہ ہے کہ عوام میں یا کم ا ز کم ان کی پارٹی میں یہ تاثر بڑھ گیا کہ نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی‘ بات یہ ہے کہ جمہوری حکومتوں کو کسی مصنوعی طریقے سے ختم کرنے کے بجائے انہیں ووٹ کے ذریعے ہی اقتدار سے الگ کرنا چاہیے یہ مشق کرنے کے بعد ہی اس ملک میں خاندانوں کی سیاست ختم ہوگی ورنہ نہیں۔ سول سوسائٹی کے نمائندے اور ماضی میں پیپلزپارٹی کے ساتھ رہنے والے سید ذوالفقار علی شاہ نے کہا کہ ہمارے ملک میں خاندان ہی بااثر رہے ہیں‘ جنرل ایوب خان کے دور میں بائیس خاندان تھے جو ملکی کاروبار پر چھائے ہوئے تھے اور بعد میں یہی خاندان سیاست میں بھی آگئے لہٰذا خاندانوں کی سیاست کی بنیاد ایوب خان کے دور سے ہی رکھی گئی‘ اس لیے ہی ایوب خان کے صدارتی انتخاب میں اس وقت کی اپوزیشن نے ایوب خان کے مقابلے کے لیے محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی امیدوار بنایا کہ یہ قائد اعظم کی ہمشیرہ ہیں لہٰذا اس نسبت سے عوام میں انہیں پذیرائی ملے گی‘ وہ الگ بات ہے کہ صدارتی انتخاب کے نتائج ہائی جیک ہوگئے‘ تاہم محترمہ فاطمہ جناح کمزور امیدوار نہیں تھیں لیکن یہ بھی خاندانوں کی سیاست کا ہی باب تھا‘ ہماری سیاسی جماعتوں کے ایک بڑی اکثریت ایسی ہے کہ جن میں ایک ہی خاندان پارٹی کی قیادت کرتا چلا آرہا ہے‘ پیپلزپارٹی‘ اے این پی‘ جمہوری وطن پارٹی‘ قومی جمہوری وطن پارٹی اور دیگر بہت سی سیاسی جماعتیں ہیں جن کا نام لیا جا سکتا ہے‘ مسلم لیگ (ف) کی سربراہی پیر خاندان کے پاس ہے‘ مسلم لیگ (ق) کی سربراہی چودھری خاندان کے پاس ہے‘ مسلم لیگ (ن) کی سربراہی شریف خاندان کے پاس ہے یہ سب سیاسی خاندان سیاست سے اس وقت آئوٹ ہوں گے جب انہیں ووٹ کی طاقت سے نکالا جائے گا۔ اسلام آباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹریز کے صدر سجاد سرور نے کہا کہ ہمارے ملک میں خاندانوں کی سیاست ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں ایک بار اپنی ٹرم پوری کرنے دی جائے اور 5 سال کے بعد ووٹ کے ذریعے فیصلہ ہو کہ انہیں دوبارہ منتخب کرنا ہے یا مسترد کرنا ہے جب تک یہ نہیں ہوگا پاکستان میں خاندانوں کی سیاست بھی ختم نہیں ہوگی‘ ہماری پارلیمان میں ہر وقت ہلڑ بازی جاری رہتی ہے، یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اہل سیاست مل کر آگے نہ بڑھنے کی قسم کھا چکے ہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ اگر ملک کو درست سمت میں آگے بڑھانا ہے تو آئین کے تحت ہی کام کرنا ہو گا، ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر فیصلے نہیں ہو سکتے۔ اینکر پرسن رضا عباس نے کہا کہ ہمارے ملک میں یہ کسی کی ترجیح نہیں نظر آتی کہ خاندانوں کے مقابلے کے لیے عوام کو کب اور کس طرح منظم کیا جا سکتا ہے‘ جب تک عوام منظم نہیں ہوںگے‘ خاندانوں کی سیاست چلتی رہے گی‘ حالیہ سروے میں 48 فیصد نوجوانوں کے مطابق ملک کا سب سے بڑا چیلنج مہنگائی ہے، 45 فیصد نوجوانوں کے مطابق سب سے بڑا مسئلہ بیروزگاری،31 فیصد کے مطابق مذہبی انتہا پسندی ہے۔ صحت پر خرچ کیے جانے والے اخراجات کے بارے میں سروے نشاندہی کرتا ہے کہ پچھلے سال یہ رقم جی ڈی پی کا ۱یک فیصد تھی، ملک میں بیروزگاری کی شرح 6.3 فیصد بتائی گئی ہے ‘ پاکستان کا ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس میں مزید کم ہوکر 164 ویں نمبر پر آجانا افسوسناک ہے جو بھارت، بنگلادیش، سری لنکا، مالدیپ، نیپال اور بھوٹان سے بھی کم ہے۔ ان سب سے نمٹنے کے لیے ایک مربوط پالیسی کی ضرورت ہے جس میں معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام کا ہونا ناگزیر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قلیل مدت اور طویل مدت کے اہداف متعین کیے جائیں۔ ایک آزاد معاشی پالیسی اختیار کی جائے جو صرف ملک کا مفاد کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرے یہ اس ملک کے نوجوانوں کی سوچ ہے اب دیکھیں کون سی ایسی سیاسی جماعت ہے جس نے اپنی ترجیحات میں ملک کے ان مسائل کو اہمیت دی ہو۔