قطر میں حماس اسرائیلی جنگ بندی مذاکرات ختم اور امریکا کی جانب سے پیش کردہ غزہ میں فائر بندی کے منصوبے میں ’نئی شرائط‘ کو حماس نے مسترد کر دیا ہے۔ مذاکرات کا اگلا دور اب اگلے ہفتے مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ہوگا۔ سوال یہی ہے کہ اس دوران کیا ہوگا؟ اس سلسلے میں اطلاعات ہیں کہ غزہ میں قیام امن اور حماس اسرائیل جنگ بندی کے لیے مذاکرا ت کا ایک اور دور ناکامی سے دوچار ہو گا۔ اس طرح امریکا نے مذاکرات کے دھوکے میں اسرائیل کو قتل عام کی اجازت دے دی ہے۔ 16 جولائی کی شب اسرائیلی فوج نے جنوبی غزہ سے فلسطینیوں کو ایک نئے انخلا کا حکم جاری کر دیا ہے۔ اس علاقے کو اسرائیلی فوج نے اس سے پہلے محفوظ زون قرار دیا تھا۔ اب اسی علاقے پر بمباری کی تیاری کر لی گئی ہے۔ امریکا کی قیام امن اور جنگ بندی کے لیے مذاکرات شروع ہوتے ہی اسرائیل بمباری شروع کر دے گا۔ ان حالات میں ’’دوحا‘‘ مذاکرات کی کامیابی کے آثار دور دور تک نظر نہیں آرہے ہیں۔
حماس کے سربراہ یحییٰ سنوارنے مذاکرات سے قبل ہی گزشتہ پیر کی شب عرب ثالثوں کو بھیجے گئے ایک پیغام کہا تھا کہ اگر اسرائیل مذاکرات میں سنجیدہ ہے اور وہ چاہتا ہے کہ حماس شرکت کرے تو اسے پہلے غزہ میں اپنی فوجی کارروائیاں روکنی ہوں گی۔ یحییٰ سنوار، جنہوں نے اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد تحریک کی سربراہی سنبھالی ہے، نے کہا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ مذاکرات کا یہ دور محض ایک چال ہے جو اسرائیل کو غزہ میں اپنی نئی فوجی مہم شروع کرنے کے لیے اضافی وقت فراہم کرتی ہے ۔ یحییٰ سنوار کو اس بات کا پختہ یقین تھا کہ 15 اگست کے مذاکرات سے اسرائیل صرف وقت چاہتا ہے اور نئی جنگ کی تیاریاں مکمل کر نے میں مصروف ہے۔ اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس کے جنوبی غزہ کو محفوظ زون قرار دینے کے باعث حماس نے اس علاقے کو اپنے بیس کیمپ کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس لیے اب یہاں بھی آپریشن لازمی ہے۔ فوجی بیان کے مطابق حماس اس علاقے کو اسرائیل پر حملوں کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے رائٹرز کا کہنا ہے کہ ابھی ان دعووں کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
گزرے 11 ماہ کے دوران امریکا، برطانیہ اور فرانس جنگ بندی کی باتیں کر رہے ہیں لیکن اس کے لیے عملی اقدامات کہیں نظر نہیں آرہے ہیں۔ امریکی وزیر ِ خارجہ انتھونی بلنکن 7 اکتوبر 2023ء کے بعد 11 ویں مرتبہ خطے کا دورہ کر رہے ہیں اور اس دورے کے دوران فلسطینیوں کا قتل ِ عام جاری ہے، فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق غزہ میں فائربندی کے لیے بین الاقوامی دباؤ بڑھنے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ ہم پہلے سے کہیں زیادہ قریب ہیں۔ لیکن یہ سب فلسطینیوں کے قتل عام کا پلان ہے؛ اور کچھ بھی نہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ ا مریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن مصر، قطر، اردن اور اس ہفتے کے آخر میں اسرائیل کا دورہ کریں گے تاکہ نئی تجویز میں پیش رفت ہو سکے۔ وزیر خارجہ خطے کے تمام فریقوں پر زور دیں گے کہ وہ کشیدگی میں اضافے یا کسی ایسے دوسرے اقدام سے گریز کریں، جس سے معاہدے کو حتمی شکل دینے کی صلاحیت کو نقصان پہنچے۔
31 جولائی کو ایران میں ایک حملے میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد سے واشنگٹن نے اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ مل کر غزہ میں فوری فائر بندی پر زور دیا ہے۔ اس قتل کا الزام اسرائیل پر عائد کیا گیا، جس سے جوابی کارروائی کی دھمکیوں اور مشرق وسطیٰ میں بڑی جنگ کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ قطری اور امریکی ثالث اس فریم ورک کی تفصیلات کو حتمی شکل دینے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کا ابتدائی خاکہ جو بائیڈن نے مئی میں پیش کیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ یہ تجویز اسرائیل نے پیش کی تھی۔ لیکن مہینوں سے جاری مذاکرات اب تک فائر بندی اور قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کی تفصیلات طے کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
سوال یہی ہے کہ ثالثوں کے دوحا میں دو روزہ مذاکرات ’سنجیدہ اور تعمیری‘ تھے یا سب کچھ اسرائیل کو وقت دینے کا منصوبہ ہے۔ ایک مشترکہ بیان میں انہوں نے کہا کہ امریکا نے ’قریب لانے والی تجویز‘ پیش کی ہے جس میں اگلے ہفتے قاہرہ میں مذاکرات کے نئے دور میں جلد ایک معاہدے کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ حماس نے فوری طور پر تازہ ترین منصوبے میں اسرائیل کی جانب سے ’نئی شرائط‘ کی مخالفت کا اعلان کیا۔ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے امریکی صدر بائیڈن کے فریم ورک کا حوالہ دیتے ہوئے ثالثوں پر زور دیا کہ وہ حماس پر ’27 مئی کے اصولوں کو قبول کرنے کے لیے ’دباؤ‘ ڈالیں۔ اے ایف پی کے مطابق اردن نے معاہدے میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام نیتن یاہو پر عائد کیا اور وزیر خارجہ ایمن صفادی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ’ہر اس شخص کی جانب سے دباؤ ڈالا جائے جو اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہے‘۔ باخبر ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ حماس نے جن شرائط پر اعتراض کیا ان میں مصر کے ساتھ غزہ کی سرحد پر اسرائیلی فوجیوں کو رکھنا اور اسرائیلی قیدیوں کے بدلے اسرائیلی جیلوں سے فلسطینیوں کی رہائی سے متعلق شرائط شامل ہیں۔ حالیہ ہفتوں کے دوران اسرائیل پر فائر بندی پر رضامندی کے لیے سفارتی دباؤ بڑھ گیا ہے۔ اسرائیل یہ چاہتا ہے کہ پہلے یرغمالیوں کو رہا کیا جائے اس کے بعد جنگ بندی ہو گی لیکن حماس اس پر راضی نہیں ہے۔
برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی اور ان کے فرانسیسی ہم منصب اسٹیفن سیجرنے نے جمعے کو غزہ میں فائر بندی پر زور دینے کے لیے بات چیت کی۔ یہ دونوں اسرائیل کے دورے پر بھی آرہے ہیں یہ سارے ایک ہی ہدف پر کام کرر ہے ہیں اور وہ ہے اسرائیل کے دفاع کو مضبوط اور فلسطینیوں کے قتل عام کو جاری رکھنے میں اسرائیل کی مدد۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے وزیر خارجہ نے اپنے ہم منصبوں سے کہا ہے کہ اگر ایران اسماعیل ہنیہ کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے اسرائیل پر حملہ کرتا ہے تو وہ ایران پر ’حملہ کرنے‘ میں غیر ملکی حمایت کی توقع رکھتے ہیں۔ ایک سینئر امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نامہ نگاروں کو بتایا کہ اگر ایران نے اسرائیل پر حملہ کیا تو اسے ’تباہ کن‘ نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار جوزف بوریل نے کہا ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کی تجویز پیش کریں گے۔ بوریل نے ایکس پر پوسٹ کیا: آئے دن تقریباً مکمل استثنیٰ کے ساتھ اسرائیلی آبادکار مقبوضہ مغربی کنارے میں تشدد کو ہوا دے رہے ہیں۔ اسرائیلی حکومت کو ان ناقابل قبول اقدامات کو فوری طور پر روکنا چاہیے۔ لیکن جوزف بوریل صاحب اس بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ اس لیے کہ امریکا، فرانس، برطانیہ اور عالم اسلام کے حکمران سب ہی تو اسرائیل کے حامی ہیں۔ بیان بازی سے جنگ نہیں رکتی جنگ بندی کے لیے طاقت کی ضرورت ہے اور یہ طاقت صرف امریکا کے پاس ہے جو وہ اسرائیل کو دے چکا ہے۔