ساڑھے تین چار سال قبل کووِڈ کے زمانے میں ایک خاص سہولت متعارف کرائی گئی جس سے دنیا بھر میں کروڑوں لوگ مستفید ہوئے۔ یہ سہولت تھی ورک فرام ہوم کی یعنی گھر سے کام کرنا۔ جو کام انٹرنیٹ کی مدد سے یعنی آن لائن ہوسکتے ہیں اُن کے لیے دفتر آنا لازم نہیں سمجھا گیا اور یوں دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو ایک ایسی سہولت ملی جس کا وہ صرف خواب دیکھا کرتے تھے۔
ورک فرام ہوم کو اس لیے بھی فروغ دیا گیا کہ اِس صورت میں ایک طرف تو ملازمین کو روزانہ کام پر آنے اور گھر واپس جانے کے جھنجھٹ سے نجات ملی اور دوسری طرف اداروں کو بھی اپنے اخراجات کم کرنے کا موقع ملا۔ دفتر میں برائے نام اسٹاف ہو تو اخراجات بھی برائے نام رہ جاتے ہیں اور گپ شپ کے نام پر کام سے بھاگنے اور وقت ضائع کرنے کے رجحان کی بھی بیخ کُنی ہوتی ہے۔ اب کہا جارہا ہے کہ ورک فرام ہوم سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے اور ہوا ہے۔ دنیا بھر میں جن اداروں نے اپنے ملازمین کو گھر سے کام کرنے کی سہولت فراہم کی تھی وہ اب چاہتے ہیں کہ ملازمین دوبارہ دفتر آنا شروع کریں مگر وہ آنا کانی کر رہے ہیں۔ یومیہ سفر سے نجات ملی ہے، وقت بھی بچتا ہے اور اخراجات بھی گھٹے ہیں۔ ایسے میں کوئی ورک فرام ہوم کی دل کش سہولت سے کیوں دست بردار ہونا چاہے گا؟
گوگل جیسے بڑے اور نامی گرامی ادارے کو بھی ورک فرام ہوم نے کہیں کا نہ چھوڑا۔ وہ مقابلے کی دوڑ میں پیچھ رہ گیا ہے۔ گوگل کے پالیسی سازوں نے ملازمین کی سہولت کو مقدم رکھا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ گھریلو زندگی اور معاشی سرگرمیوں کے درمیان توازن ہونا چاہیے۔ یہ توازن برقرار رکھنے کے چکر میں ادارہ ہی عدم توازن کا شکار ہوگیا ہے۔ گوگل کے سابق چیف ایگزیکٹیو آفیسر ایرک شمِٹ کا کہنا ہے کہ گوگل آج مصنوعی ذہانت کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے تو اِس کا ایک بنیادی یا کلیدی سبب یہ ہے کہ اُس نے کووِڈ کے زمانے میں اپنائی جانے والی ورک فرام ہوم کی پالیسی کو ترک کرنے میں دلچسپی نہیں لی۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ ملازمین میں بھرپور جوش اور ولولے کے ساتھ کام کرنے کی عادت ختم ہوچکی ہے۔ وہ چونکہ کم کم ملتے ہیں اِس لیے خیالات کا تبادلہ بھی نہیں کر پاتے۔ اُنہیں ایک دوسرے کی سوچ اور رجحانات کا اندازہ ہی نہیں ہو پاتا۔ اِس کے نتیجے میں اُن کے کام میں اچھا خاصا جمود پیدا ہوچکا ہے۔
ایرک شمِٹ کہتے ہیں کہ ہائی ٹیک کی دنیا میں سارا کھیل ہی جدت اور ولولے کا ہے۔ اگر کسی ادارے کے ملازمین میں ولولہ نہ ہو تو وہ بھرپور کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکتے۔ گوگل اس معاملے میں پِچھڑا ہوا ہے۔ اُس نے ورک فرام ہوم کی سہولت مکمل طور پر ترک کرنے کے بجائے ملازمین کا خیال کیا اور اب اُس کا نتیجہ بھگت رہا ہے۔
امریکا کی اسٹینفرڈ یونیورسٹی میں طلبہ و طالبات سے خطاب کرتے ہوئے ایرک شمِٹ نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کا شعبہ غیر معمولی محنت مانگتا ہے اور یہ ساری محنت صرف اور صرف جدت کے لیے ہوتی ہے۔ لگے بندھے طریقوں سے کام کرنے والے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت نے ہر طرف، ہر معاملے میں جدت کا بازار گرم کردیا ہے۔ ایسے میں کوئی بھی ادارہ اپنے ملازم کو نیا سوچنے کی تحریک دیے بغیر آگے بڑھنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔
ایرک شمِٹ کا استدلال ہے کہ اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں اس بات کی اہمیت کم رہ گئی ہے کہ کوئی ادارہ ملازمین کی بہبود کے بارے میں زیادہ سوچے۔ یہ مقابلے کی دنیا ہے۔ ملازمین کو بھی اچھی طرح اندازہ ہے کہ اُن سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کی جاتی ہیں۔ یہ توقعات اُسی وقت بارآور ثابت ہوسکتی ہیں جب ملازمین سے کام لیا جائے۔ یہی سبب ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر میں ملازمین اپنے آرام اور سُکھ چین کا زیادہ سوچنے کے بجائے زیادہ اُجرت کا سوچتے ہیں۔ اگر اُنہیں اضافی کام کے لیے معقول معاوضہ دیا جائے تو وہ اپنا آرام بھی ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔
ایرک شمِٹ کہتے ہیں کہ گوگل جیسے اداروں نے اپنے آپ کو حالات کے مطابق تبدیل نہیں کیا جس کے باعث وہ پیچھے رہ گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کی دنیا میں کسی بھی بڑے اور بالخصوص ہائی ٹیک ادارے کے ملازمین کا اشتراکِ عمل لازم ہے کیونکہ وہ خیالات کا تبادلہ یومیہ بنیاد پر کرتے ہیں تو نیا سوچنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اس بات کی اہمیت ہے کہ لوگ اپنے خیالات دوسروں تک پہنچائیں اور اُن کے خیالات سے مستفید ہوں تاکہ اس بات کا امکان ختم ہو کہ ایک ہی معاملے پر کئی لوگ کام کر رہے ہوں۔
فی زمانہ اس بات کی بہت زیادہ اہمیت ہے کہ ادارے اپنے ملازمین کو کام کرنے کے لیے کُھلا میدان فراہم کریں، اُنہیں اُن کی مرضی سے کام کرنے دیں، اوقاتِ کار کے دائرے میں اُنہیں مقید نہ کریں بلکہ زیادہ سے زیادہ کام لینے کے لیے اُن کی مرضی کا ماحول تیار کریں۔ ایرک شمِٹ کا کہنا تھا کہ ہائی ٹیک کے شعبے میں آنے والے نئے اداروں نے زیادہ تیزی سے کامیابی اس لیے حاصل کی ہے کہ اُنہوں نے نئی نسل کے مزاج کو سمجھا ہے، اُس کی ضرورتوں کا خیال رکھا ہے اور کام کا ایسا ماحول تیار کیا ہے جس میں اُن کی پسند و ناپسند کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ گوگل جیسے ادارے ملازمین کی نفسیات اور ضرورتوں کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ (انڈیا ٹوڈے)