ابھی کولکتہ میں پولیس اہلکار کے ہاتھوں ایک جونیر ڈاکٹر سے زیادتی اور قتل معاملہ چل ہی رہا ہے اور ملک بھر میں ڈاکٹرز احتجاج پر تُلے ہوئے ہیں کہ بھارتی ریاست ہریانہ کے شہر روہتک کا قصہ سامنے آیا ہے۔ روہتک شہر میں میڈیکل کی ایک طالبہ نے الزام لگایا ہے کہ ڈینٹل کالج اینڈ ہاسپٹل کے ایک ریزیڈنٹ ڈاکٹر نے اُس سے زیادتی کی ہے۔ پولیس نے مقدمہ درج کرلیا ہے۔
روہتک کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ویریندر سنگھ نے بتایا ہے کہ پوسٹ گریجویٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کی ایک طالبہ نے پولیس کو دی جانے والی تحریری شکایت میں کہا ہے کہ ایم ڈی (ایناٹومی) کے طالبِ علم ڈاکٹر نے اُسے اغوا کرکے اُس سے زیادتی کی۔
طالبہ کا دعوٰی ہے کہ 16 اگست کو اُسے اغوا کرکے ریزیڈنٹ ڈاکٹر اُسے امبالا اور چنڈی گڑھ لے گیا اور اُس سے زیادتی کی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر کے خلاف مقدمہ تو درج کرلیا گیا ہے تاہم اب تک لڑکی سے زیادتی کے شواہد نہیں ملے ہیں۔
لڑکی نے سوشل میڈیا پر ایک وڈیو بھی اپ لوڈ کی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے جسم پر کچھ نشانات دکھاکر روتے روتے بتارہی ہے کہ ڈاکٹر اُسے سات ماہ سے ہراساں کر رہا تھا اور دھمکیاں بھی دیتا رہا تھا کہ اگر اُس نے کسی کو کچھ بتایا تو خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پوسٹ گریجویٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز نے مشتبہ ملزم ڈاکٹر کو نکال دیا ہے اور کالج کی حدود میں اُس کے داخلے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
بھارت میں خواتین سے اجتماعی زیادتی کے واقعات میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ دور افتادہ اور دیہی علاقوں میں ایسے واقعات بڑی تعداد میں ہوتے ہیں جو رپورٹ بھی نہیں ہو پاتے۔ تامل ناڈو میں ایک کم عمر لڑکی سے آٹھ افراد کی اجتماعی زیادتی کا واقعہ بھی منظرِعام پر آیا ہے۔ اس میں ایک بڑی سیاسی جماعت کا رکن بھی ملوث ہے۔
بھارتی معاشرے میں خواتین کو درپیش عدمِ تحفظ کا معاملہ انتہائی سنگین نوعیت اختیار کرتا جارہا ہے۔ بہت سے بڑے شہروں کی انتظامیہ نے خواتین سے استدعا کی ہے کہ تنہا سفر سے گریز کریں اور رات کے وقت باہر نہ نکلنے کو ترجیح دیں۔ بنیادی حقوق کے دعویدار گروپ اس مشورے کے خلاف بھی اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ بہت سے شہروں میں اس بات پر احتجاج ہوا ہے کہ رات کو گھر سے نکلنا بنیادی حق ہے جس کی راہ میں روڑے نہیں اٹکائے جاسکتے۔