تحریر: راحیلہ خان ایڈووکیٹ
بڑھتی مہنگائی، غربت و بیروزگاری سے محنت کش پہلے کم پریشان نہیں تھے کہ رہی سہی کمی بجلی کے بلوں نے پوری کر دی ہے۔ آج ایک آفس میں چپڑاسی کو پریشان دیکھا تو پوچھا کہ کیا ہوا ہے، بولا وکیل صاحبہ بجلی کا 20 ہزار کابل آیا ہے۔ اپنی تنخواہ سے تو ادا نہیں کر
سکتا۔ قرض کے لیے جس سے پوچھتا وہ اپنا بجلی کا بل دیکھاتا ہے۔ وکیل صاحبہ اتنی اندھیر مچی ہے کہ قرض بھی نہیں مانگ سکتے۔ چپڑاسی کی بات سولہ آنے درست تھی کہ بجلی کے بلوں نے غریب محنت کش کی کمر توڑ دی ہے۔ 30 ، 40 ہزار کمانے والی معمولی آفس سیکرٹری کا 22 ہزار کا، آفس بوائے کا 21 ہزار کا بل دیکھ کر افسوس ہوا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو چھوٹے سے گھروں میں ایک 2 پنکھے اور لائٹ چلانے والے لوگ ہیں جبکہ چار کمروں والے گھروں کے لوگوں کے بل لاکھوں تک پہنچ گئے ہیں۔ جبکہ محنت کش کی کم از کم اجرت بھی ان بلوں کے متوازی نہیں آسکی۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اب عوام دھرنے کی کامیابی کی شدت سے منتظر ہے اور چاہتی ہے کہ حکومت اس معاملے پر اپنے گھنٹے ٹیکے۔ ملک میں سیاسی جماعتوں کی کوئی کمی نہیں ہے، مگر کم ہی ایسی سیاسی جماعتیں ہیں جو عوام کے حقیقی مسائل کی ترجمانی کرتے ہوئے جہدوجہد کرتی ہیں۔ جماعت اسلامی اس وقت سب سیاسی جماعتوں میں سبقت لے جاتے ہوئے صرف اور صرف اصولی سیاست کر رہی ہے۔