پاک جاپان سفارتی تعلقات تاریخی تناظر میں

354

قسط نمبر4

مبصرین کے مطابق سفارتی تعلقات میں اُتار چڑھاؤ پر مبنی اس صورتحال کے اثرات دور رس نتائج کے حامل سمجھے گئے۔ مزید برآں خطے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلے سے موجود کشیدگی کے نتیجے میں بین الاقوامی سطح پر روایتی حریفوں چین اور جاپان کے کیمپوں کی صورت اختیار کرگئے جبکہ جنوبی ایشیاء کے منظر نامے پر واضح طور پرجاپان کا جھکائو بھارت اور پاکستان کا وزن چین کے پلڑے میں نظر آنے لگا۔

2006 میں جاپان کی جانب سے ’’سلامتی اور آزادی کی قوس‘‘ کا تصور آرک آف سیکورٹی اینڈ فریڈم پیش کیا گیا جو ہندوستان اور آسٹریلیا کے تعاون سے شروع ہوا جس کے بعد جاپان کی جانب سے بھارت کے لیے سول نیوکلیئر تعاون اور خصوصی جوہری سپلائی کے لیے ہندوستان کے لیے مراعات کی منظوری دی گئی۔

2008 میں نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) کے پلانٹس اور پرزوں کی فراہمی نے خطے میں بڑھتے ہوئے بھارت جاپان تعاون کے بارے میں اسلام آباد کو منفی پیغام بھیجا، جس نے پاکستان اور جاپان کے تعلقات میں سرد مہری کے تاثر کو مزید گہرا کیا۔ بہر حال ان تمام کے باوجود پاکستان اور جاپان تعاون کے بہت سے منصوبوں میں ایک ساتھ کام کررہے ہیں۔ بین الاقوامی سفارت کاری میں کب کیسے اور کہاں تبدیلی پیدا ہوجائے اس کی پیش گوئی بہت مشکل ہے۔ جاپان اور پاکستان کے درمیان بہت سے شعبوں میں تعاون کے امکانات موجود ہیں۔ پھر اگر بہت سے تاریخی تنازعات کے باوجود اگر چین اور جاپان تجارت کے بڑے منصوبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں تو پاکستان اور جاپان کے درمیان تو درخشاں اور روشن ماضی کی مثالیں موجود ہیں جنہیں مفاہمت کی آبیاری اور دونوں ممالک کے عوام کی جانب سے گوندھی گئی محبت کی مٹی کے ساتھ مزید مضبوط کرنے کی گنجائش ہمیشہ سے تھی ہے اور رہے گی۔

سفارت کاری میں کئی نشیب و فراز کے باوجود دونوں ممالک تعاون اور اشتراک کے بہت سے امکانات اور امیدوں سے جڑے نظر آتے ہیں۔ 2022 پاکستان اور جاپان کے سفارتی تعلقات کی 70 ویں سالگرہ کا سال تھا۔ ماضی کے سود و زیاں کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ تعلقات میں مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے ان مٹ نقوش مستقبل کے لیے روشن امکانات کا پتا دیتے ہیں۔ جاپان نے بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے صحت، زراعت، پانی کی فراہمی کے علاوہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے شعبوں میں بھی پاکستان کی مدد کی ہے۔ 2019 میں، جاپان کی حکومت نے پاکستان کو 82.12 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔ اس کے علاوہ جاپان پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بھی ہے جس کی سالانہ تجارت 1.5 بلین ڈالر ہے۔ جاپانی آٹوموبائل سیکٹر کے لیے پاکستان نے فراخ دلانہ پالیسی اختیار کی ہے جس کی وجہ سے جاپانی کمپنیاں اپنی 90 فی صد گاڑیوں کے ساتھ اجارہ داری کے ساتھ موجود ہیں۔ حال ہی میں جاپانی کمپنی ٹویوٹا موٹرز نے پاکستان میں 100 ملین ڈالر کی ابتدائی سرمایہ کاری کے ساتھ ہائبرڈ کاروں میں بھی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔

پاکستان میں سماجی ترقی کے کئی منصوبوں میں ہمیں جاپان کے فنڈز سے چلنے والے منصوبے نظر آتے ہیں جن میں انڈس ہائی وے، تھرمل پاور اسٹیشن جامشورو، بن قاسم تھرمل پاور اسٹیشن اور کوہاٹ ٹنل شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ہری پور شہر میں ’گریویٹی فلو واٹر سپلائی اسکیم‘ کا جاری منصوبہ جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی (جائیکا) کے تعاون سے بنایا گیا ہے۔ یہ منصوبہ پانی کی فراہمی کے انتظامات پر مبنی ہے اور یہ ہری پور شہر کے مکینوں کو پینے کا پانی فراہم کرے گا۔

دونوں ممالک کے عوام کے درمیان محبت، اور تعاون کی بہترین فضا قائم ہے۔ پاکستانیوں کے دل میں جاپانیوں سے محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جاپان میں سونامی آنے کے بعد جب غیرملکیوں کا جاپان سے انخلا ہو گیا تھا پاکستانیوں نے اپنے جاپانی بہن بھائیوں کے لیے نجی طور پر بھی مدد فراہم کی اور حکومتی امدادی کاموں میں بھی بھرپور حصہ لیا۔