امریکا میں عورت کی بے چارگی اور قابل رحم حالت

548

’’تم نہ میرے مذہب کے ہو نہ میری قوم کے، نہ میری نسل کے ہو پھر تم کو مجھ سے اتنی ہمدردی کیوں ہے؟‘‘ یہ وہ الفاظ ہیں، جب ایک اسپینش۔ امریکی نوجوان خاتون نے اس ناچیز سے بتیس سال پہلے کہے تھے یہ الفاظ مجھے آج بھی حرف بحرف یاد ہیں۔

چہار دانگ عالم کی خاک چھاننے کے بعد یہ خاکسار اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ روئے زمین پر اگر کوئی عورت عزت، تزک و احتشام، احترام سے رہتی ہے تو وہ صرف اور صرف مسلمان عورت ہے۔ وہ عرب کی ہو، افغانستان کی ہو، ہندوستان کی ہو، پاکستان کی ہو، حجاز کی ہو چاہے ایران کی ہو، وجہ صرف اسلام، اسلام کی تعلیمات خدا سے ایمان کا رشتہ اور نبی کریمؐ کا اسوہ حسنہ اور آپؐ کی دلوں میں جاگزیں محبت ہے۔ لیکن افسوس ہماری مسلمان ماؤں بہنوں کو خود اپنی ہی قدر نہیں کہ وہ کتنی عزت و احترام کی نظر سے دیکھی جاتی ہیں ان کی عزت کی حفاظت کا اسلام نے کیسا لازوال نظام وضع کر رکھا ہے۔ مضمون کی طوالت سے بچنے کے لیے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔ ایک زمانے میں یہ ناچیز امریکا کے شہر شکاگو میں ایک اسٹور پر کام کرتا تھا۔ نائٹ ڈیوٹی کی وجہ سے دوسرے دن صبح کا وقت بھی اسٹور پر ہی گزرتا اور اسکول کالج دفتر جانے والے لوگ اکثر چائے بسکٹ وغیرہ میرے اسٹور سے لیتے خاص کر وہ لوگ جو ٹرین سے جانے والے ہوتے، کیونکہ میرے اسٹور کے پیچھے ہی ٹرین کا اسٹیشن تھا۔ معمول کا کاروبار چل رہا تھا۔ چوک کافی بڑا تھا اس کے باوجود دوسری طرف کا منظر صاف دکھائی دیتا۔ ایک دفع میں نے غور کیا کہ ایک نوجوان غالباً اسپینش خاتون اپنے دو۔ تین چھوٹے چھوٹے بچوں کو اسکول کی تیاری کے ساتھ اسکول وین کا انتظار کر رہی ہوتی جب بچوں کو وین میں بٹھا دیتی تو سیدھی میرے اسٹور پر آتی، وہ کسی وکیل کی سیکرٹری تھی کورٹ جانے کے لیے ٹرین میں جاتی، معمول کی ہیلو ہائے کے ساتھ میں اس کی خیر خیریت بھی معلوم کر لیتا اس کے بچوں کے بارے میں کہ اب بچے اسکول سے آئیں گے تو کون ان کو سنبھالے گا کون کھانا کھلائے گا کون ان کا منہ دھلائے گا اور ایسے ہی سوالات کرتا وہ دھیرے دھیرے کچھ بولتی رہتی، وہ چائے بسکٹ لیکر ریلوے اسٹیشن چلی جاتی۔ میں نے ایک بات پر غور کیا کہ جس گلی سے نکل کر وہ آتی ہے اسی گلی کے نکڑ پر بہت بڑا اسٹور ہے جہاں سے میں بھی اپنے اسٹور کا سامان لاتا ہوں۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ اتنے بڑے اسٹور کو چھوڑ کر وہ میرے چھوٹے اسٹور پر آتی ہے، اب الجھن کا ایک باب اور کھل گیا۔ پہلے تو میں نظر انداز کرتا رہا پھر ایک دن میں نے اس کی وجہ اس خاتون سے پوچھ ہی لی کہ آخر کیا وجہ ہے کہ تم اپنی گلی کے بڑے اسٹور کو چھوڑ کر میرے چھوٹے اسٹور پر جائے کافی لینے آتی ہو جبکہ یہ سارا سامان بھی وہیں سے آتا ہے۔ اتنا سوال کرنا صاحب، غضب ہوگیا، سیل رواں کی طرح اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے اور باقائدہ وہ ہچکیوں سے رونے لگی، میں بھی گھبرا گیا کہ اب وہ 911 پر پولیس کا بلا لے گی شاید کچھ غلط میرے منہ سے نکل گیا۔ اس کو آنسو پوچھنے کے لیے ٹیشوز دیے اسٹول دیا بیٹھنے کو، تاکہ جو اس کا دل بھر آیا ہے کچھ سکون پا لے۔ میں اس سے سوری سوری کرتا رہا بلاوجہ بیچاری کو صبح صبح رلا دیا نوکری پر جا رہی ہے بچوں کی الگ اس کو فکر لگی ہوگی، یار یہ تو کچھ زیادہ ہی غلط ہوگیا۔ جب تھوڑی سنبھلی تو میں نے عاجزانہ انداز میں اس سے کہا اگر میری کوئی بات غلط لگی ہو تو میں سوری کر لیتا ہوں، اب وہ سنبھل چکی تھی اس نے بڑے اعتماد سے کہا ’’تم نہ میرے مذہب کے ہو نہ میری قوم کے ہو نہ میری نسل کے ہو پھر تم کو مجھ سے اتنی ہمدردی کس بات پر ہے…!‘‘

میں نے کہا میں روز دیکھتا ہوں کہ آپ بچوں کو اسکول کے لیے تیار کرتی ہیں اور یہاں سے چائے بسکٹ لیکر دفتر چلی جاتی ہیں تو یہ سوالات ذہن میں آتے ہیں جو میں آپ کی خیریت کے ساتھ پوچھ لیتا ہوں۔ اس پر کہنے لگی تم واحد انسان ہو جو میری اور میرے بچوں کے بارے میں اتنی فکر کرتے ہو، ٹھندی آہ بھر کر بولی میرے چار پانچ بہن بھائی ہیں برسوں گزر جاتے ہیں مگر کوئی فون کر کے پوچھتا بھی نہیں کہ کس حال میں پڑی ہوئی ہوں۔

یہ ہے امریکی اور مغربی معاشرے کی ایک جھلک کہ ایسا معاشی و اقتصادی اور معاشرتی نظام بنا دیا ہے جہاں ہر شخص ساہو کاروں کا غلام بنا ہوا ہے۔ اس ظالمانہ نظام اور ہوس دولت کے مارے سرمایہ داروں نے مرد ہو کہ عورت ہر ایک کو اپنی روٹی کمانے پر مجبور کردیا ہے اتنا بے بس و بے کس کردیا ہے کہ پورا معاشرہ نفسا نفسی کا شکار ہے کوئی کسی کی ذمے داری اُٹھانے کو تیار نہیں سب کو اپنے کل کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ دوسری بڑی وجہ ان مغربی اقوام کے مرد و زن کو اپنے بڑھاپے سے بڑا خوف آتا ہے کیونکہ جب وہ کمانے کے لائق نہیں رہیں گے تو ان کی ذمے داری اُٹھانے والا کوئی نہ ہوگا۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کی دھن میں اپنی ذات سے آگے دیکھنے کو تیار نہیں شاید ساہو کاروں اور سرمایہ داروں کے پیدا کردہ ماحول نے انسان کو اس بے رحمی پر مجبور کردیا ہے۔ ورنہ اس عورت کا شوہر اس کی اور بچوں کی ذمے داری تو اُٹھا سکتا تھا۔ بھری جوانی میں خوبصورت بیوی کو اس طرح چھوڑ کر بھاگ جانا نظام کی سفاکیت نہیں تو اور کیا ہے۔