کراچی (رپورٹ:منیر عقیل انصاری) مصنوعی ذہانت سے بیروزگاری بڑھے اور جدیدہتھیاروں کی تیاری کوفروغ ملے گا ‘اے آئی کے فروغ سے ذاتی معاملات میںمداخلت،غلط معلومات اور نفرت انگیز مواد کا پھیلاؤ ،معاشرتی عدم مساوات میں اضافہ اور احتساب کا عمل مشکل ہوجائے گا‘ٹیکنالوجی دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتی ہے‘ انسانیت کو تباہی سے بچانے کے لیے عالمی قوانین کی تیاری اور نفاذ ناگزیر ہے ۔ان خیالات کا اظہار معروف سائنس دان، ہائیرایجو کیشن کمیشن پاکستان کے سابق چیئرمین، سابق وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمن‘ جامعہ کراچی شعبہ ویڑول اسٹڈیز کے لیکچرار، جامعہ کراچی سے اردو اشتہارات کی تاریخ میں پی ایچ ڈی کرنے والے پروفیسر ڈاکٹر شرف عالم‘ اسلامک اسکولز ایسوسی ایشن آف آسٹریلیا کے چیئر مین عبداللہ خان اور کریکٹر ایجوکیشن فائونڈیشن پاکستان کے ایمبیسڈر، معروف ماہر معاشیات محمد فاروق افضل نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’مصنوعی ذہانت کے
فروغ سے انسانیت کو کیا خطرات لاحق ہو رہے ہیں؟‘‘ ڈاکٹر عطا الرحمن کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے بہت سے فوائد ہیں لیکن اس کا بے دریغ استعمال انسانی بقا کے لیے ایک سنگین خطرہ بھی بن سکتا ہے‘ انہی فوائد و نقصانات کو سمجھنا اور اعتدال میں استعمال کرنا ہم پر منحصر ہے‘ بین الاقوامی سطح پراس کے استعمال کے قوانین بنانا اور حدود طے کرنا انتہائی ضروری ہے‘ مصنوعی ذہانت میں تیز ترین ترقی اب بنی نوع انسان کے لیے عنقریب آنے والی تباہی کے خطرے کی گھنٹیاں بھی بجا رہی ہے‘ مصنوعی ذہانت کا ایک اور اہم خطرہ انسانی ملازمتوں کا خاتمہ ہے‘ جیسے جیسے مصنوعی ذہانت زیادہ ترقی یافتہ ہوتی جائے گی‘ اس میں وسیع پیمانے پر صنعتوں میں انسانی کارکنوں کی جگہ لینے کی صلاحیت بڑھتی جائے گی، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری اور معاشی بدحالی پیدا ہوجائے گی‘ مصنوعی ذہانت کے خطرات اور مضر اثرات سے نمٹنے کے لیے یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ اس نظام کو محفوظ اور ذمہ دارانہ انداز میں تیار کیا جائے‘ جیسے جیسے مصنوعی ذہانت میں زیادہ نکھار آتا جا رہا ہے‘ یہ پیش گوئی کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ بعض حالات میں اس کے کیا نتائج ہوں گے‘ اس کے غیر ارادی اور ممکنہ طور پر تباہ کن نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کا ایک اور خطرہ احتساب کی کمی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے نظام اپنے طور پر کام کرتے ہیں اور انسانی عمل دخل کے بغیر فیصلے کرسکتے ہیں لہٰذا کئی مقامات پر اس سے ایسی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے جہاں کسی کو بھی اس نظام کے نتائج کا ذمہ دار ٹھہرانا مشکل ہو جائے گا۔ مصنوعی ذہانت سے ایک نہایت خطرناک ہتھیار بھی بنایا جا سکتا ہے، جس کے تباہ کن نتائج ہو سکتے ہیں، خود مختار ہتھیارجسے قاتل روبوٹ بھی کہا جاسکتا ہے، کے ذریعے مصنوعی ذہانت کو انسانی دخل اندازی کے بغیر فوجی آپریشن کرنے کے لیے پروگرام کیا جا سکتا ہے، جس سے بے گناہ جانوں کا ضیاع ہو سکتا ہے اور بڑے پیمانے پر تباہی ہوسکتی ہے‘ جنوری2023ء سے اب تک اس کو ماہانہ استعمال کرنے والوں کی تعداد 10 کروڑ سے بھی تجاوز کر گئی ہے‘ پوری دنیا میں لوگ چیٹ بوٹ کو استعمال کرنے کے لیے قطار میں کھڑے ہو رہے ہیں لیکن سب کچھ اچھا نہیں ہے۔ مصنوعی ذہانت سے وابستہ خطرات کی نشاندہی کرنے کے بعد ہمیں اس کا بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ مصنوعی ذہانت کے بہت سے فوائد بھی ہیں۔ طب سے لیکر مالیات تک، تعلیم سے لے کر نقل و حمل تک، مصنوعی ذہانت ہماری زندگی کے تقریباً ہر پہلو میں انقلاب لانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کا سب سے امید افزا استعمال صحت کی دیکھ بھال ہے۔ اس میں ڈاکٹروں اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد کو بیماریوں کی زیادہ درست اور تیزی سے تشخیص کرنے میں مدد کرنے کی صلاحیت ہے۔ مصنوعی ذہانت ڈاکٹروں کو مریض کی انفرادی طبی تاریخ اور جینیاتی خاکے کی بنیاد پر مزید ذاتی نوعیت کے علاج کے منصوبے تیار کرنے میں بھی مدد کر سکتی ہے‘ اعلیٰ ذہانت کی مشینیں خود کو تیزی سے بہتر کرنے کی صلاحیت کی حامل ہوں گی جس سے ان کی ذہانت میں بے پناہ اضافہ ہوجائے گا۔ اس سے ایسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے جہاں مشینیں انسانوں سے زیادہ ذہین ہو جائیں گی اور ہمارے وجود کے لیے خطرہ بن جائیں گی۔ ڈاکٹر شرف عالم کا کہنا ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا مصنوعی ذہانت (اے آئی) جدید ترین ٹیکنالوجی کا ذکرآج ہر طرف ہے‘ یہ تیزی سے بڑھتا ہوا شعبہ ہے جس کا اثر زندگی کے ہر پہلو میں نظر آنے لگا ہے‘ مصنوعی ذہانت کا استعمال ہر دن بڑھ رہا ہے ، مصنوعی ذہانت اپنے آپ میں انقلاب ہے اور اس نے دنیا کے ہر ملک میں صارفین کی توجہ حاصل کی ہے لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس کے استعمال کو کس طرح منظم و مربوط کیا جائے؟ خدشات یہ ہیں کہ اگر مناسب طریقے سے مصنوعی ذہانت کو منظم طریقے سے استعمال نہ کیا گیا تو یہ ٹیکنالوجی انسانی وجود کے لیے خطرہ بن سکتی ہے‘ مصنوعی ذہانت کے ساتھ ہم ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں‘ مصنوعی ذہانت ٹیکنالوجی کے ایک ٹول سے کہیں زیادہ ہے‘ مصنوعی ذہانت ہمارے نئے مستقبل کی تشکیل کے لیے سب سے بڑی بنیاد بن رہا ہے‘ مصنوعی ذہانت کی ایک بڑی طاقت اس کی لوگوں کو جوڑنے کی صلاحیت ہے‘ مصنوعی ذہانت کا صحیح استعمال نہ صرف ملک کی معاشی ترقی کو یقینی بناتا ہے‘ مصنوعی ذہانت کا ترقی کا سفر جتنا زیادہ جامع ہوگا، اس کے نتائج اتنے ہی زیادہ جامع ہوں گے‘ مصنوعی ذہانت کے بہت سے مثبت پہلو ہیں لیکن اس سے متعلق منفی پہلو بھی مساوی تشویش کا باعث ہیں‘ مصنوعی ذہانت21 ویں صدی میں ترقی کا سب سے بڑا ذریعہ بن سکتا ہے اور21 ویں صدی کو تباہ کرنے میں بھی سب سے بڑا کردار ادا کر سکتا ہے‘ ڈیپ فیک کا چیلنج آج پوری دنیا کے سامنے ہے‘ اس کے علاوہ سائبر سیکورٹی، ڈیٹا چوری اور مصنوعی ذہانت ٹولز دہشت گردوں کے ہاتھ میں آنے کا بھی بڑا خطرہ ہے‘ ہمیں مصنوعی ذہانت کے غلط استعمال کو روکنے کے بارے میں ایک ٹھوس منصوبے تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔ عبداللہ خان نے کہا کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے فروغ سے انسانیت کو کئی اہم خطرات لاحق ہیں‘ جیسے جیسے اے آئی ٹیکنالوجی بہتر ہوتی جا رہی ہے، مختلف شعبوں میں انسانی ملازمتیں کم ہو رہی ہیں‘ خودکار نظاموں اور روبوٹکس کی وجہ سے بہت سی ملازمتیں ختم ہو سکتی ہیں خصوصاً وہ جو معمولی یا “Repetitive” یعنی بار بار دہرائے جانے والے کاموں پر مشتمل ہیں۔ نجی زندگی میں اے آئی کی مدد سے ذاتی ڈیٹا کی نگرانی اور تجزیہ میں غیر معمولی ترقی ہوئی ہے‘ جس سے رازداری کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں‘ بڑی کمپنیاں اور حکومتیں AI کا استعمال کرتے ہوئے افراد کی سرگرمیوں، ترجیحات اور سماجی روابط پر نظر رکھ سکتی ہیں، جس سے ذاتی آزادی متاثر ہو سکتی ہے۔ اے آئی کے ذریعے بڑے پیمانے پر جعلی خبریں اور غلط معلومات پھیلائی جا سکتی ہیں جس سے معاشرتی تفریق اور انتشار میں اضافہ ہو سکتا ہے‘ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اے آئی کی مدد سے نفرت انگیز مواد اور افواہیں تیزی سے پھیل سکتی ہیں۔ اے آئی کے استعمال سے خودمختار ہتھیار تیار کیے جا سکتے ہیں جو انسانی مداخلت کے بغیر فیصلے کر سکتے ہیں۔ یہ ہتھیار جنگی حالات میں استعمال ہونے کی صورت میں غیر متوقع اور تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتے ہیں۔ اے آئی کے فروغ سے فائدہ اٹھانے والے اور محروم رہنے والے لوگوں کے درمیان فرق بڑھ سکتا ہے جو لوگ اے آئی تک رسائی رکھتے ہیں، وہ زیادہ ترقی کر سکتے ہیں، جبکہ دیگر لوگ پیچھے رہ سکتے ہیں، جس سے معاشرتی عدم مساوات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ان خطرات کے پیش نظر، ضروری ہے کہ اے آئی کی ترقی اور استعمال کو باقاعدہ اورمنظم کیا جائے اور کچھ ضروری قواعد کا پابند بنایا جائے تاکہ انسانی زندگی پر اس کے منفی اثرات کو کم کیا جا سکے۔ محمد فاروق افضل کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مصنوعی ذہانت دنیا بھر کی طرح پاکستان میں تبدیلی لانے والا ہے لیکن یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اسے زیادہ سے زیادہ شفاف بنائیں‘ اگر ہم استعمال شدہ ڈیٹا اور الگورتھم کو شفاف اور تعصب سے پاک بنا سکتے ہیں، تو یہ ایک اچھی شروعات ہوگی‘ ہمیں دنیا بھر کے لوگوں کو یہ باور کرانا ہے کہ مصنوعی ذہانت ان کے فائدے کے لیے ہے، ان کی بھلائی کے لیے ہے‘ ہمیں دنیا کے مختلف ممالک کو یہ بھی یقین دلانا ہوگا کہ اس ٹیکنالوجی کی ترقی کے سفر میں کوئی پیچھے نہیں رہے گا‘ جب مصنوعی ذہانت سے متعلق اخلاقی، معاشی اور سماجی خدشات کو مدنظر رکھا جائے گا تو مصنوعی ذہانت پر اعتماد بڑھے گا‘ مصنوعی ذہانت صنعت سے لے کر سرمایہ کاری اور آب و ہوا کی تبدیلی تک معیشت کے تقریباً تمام شعبوں میں انسانی کارکردگی کو فروغ دے سکتی ہے‘ تعلیم اور صحت کے شعبے مصنوعی ذہانت سے چلنے والے ٹولز کا استعمال کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈبلیو ایچ او نے 5 شعبوں کی نشاندہی کی ہے جن میں اِس ٹیکنالوجی کو بڑے پیمانے پر انسانیت کے فائدے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے‘ مصنوعی ذہانت علمی معیشت کے لیے گیم چینجر ثابت ہوسکتی ہے‘ جس سے معاشی نمو اور ترقی کو فروغ مل سکتا ہے‘ مصنوعی ذہانت نے صرف شطرنج میں ہی انسانوں کو نہیں ہرایا بلکہ وہ تیزی سے انسانوں کو اپنے سسٹم سے خارج کرتے جا رہے ہیں‘ مشینیں اب انسانوں کی ذہانت سے ماورائے سوچنے لگی ہیں‘ کتنے ہی محاذوں پر اب انہیں انسانوں کی ضرورت ہی نہیں رہی ہے‘ مصنوعی ذہانت کے بہت سے بڑے ناموں نے ایک مختصر بیان پر دستخط کے ذریعے مصنوعی ذہانت سے لاحق خطرات سے انسانیت کو متنبہ کیا ہے۔