ایف پی سی سی آئی پالیسی ایڈوائزری بورڈ اورنیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ بجلی کے نرخ اورٹیکسوں کے خلاف جماعت اسلامی کا احتجاج ایک مثبت اقدام تھا۔ یہ احتجاج سیاسی مقاصد کے لئے نہ تھا بلکہ قوم کومصیبت سے چھٹکارا دلوانے کے لئے تھا مگر آئی پی پیزسے ملی بھگت کرنے والوں نے اس میں حصہ نہ لے کرخود کوبے نقاب کیا ہے۔ حکومت کی یقین دہانیوں پرجماعت اسلامی کا احتجاج ختم ہوتے ہی بجلی کے نرخ میں دوروپے چھپن پیسے کا اضافہ کرکے حکومت نے عوام کے سامنے اپنی بے بسی ثابت کر دی ہے۔ موجودہ حالات میں نہ توحکومت مہنگائی کم کرنے کے لئے کچھ کررہی ہے اورنہ ہی اسٹیٹ بینک کی کوششوں سے کوئی فائدہ ہورہا ہے۔ مہنگائی اسی وقت کم ہوسکتی ہے جب مافیا کے مفادات کو پس پشت ڈال کربھارت سے تجارت شروع کی جائے کیونکہ وہاں زیادہ تراشیائے خوردونوش پاکستان کے مقابلہ میں بہت سستی ہیں اورانکی درآمد پاکستانی مافیا کی کمرتوڈ ڈالے گی جو کچھ لوگوں کے لے قابل قبول نہیں ہے۔ اسی طرح ایران اورافغانستان میں جواشیاء پاکستان کے مقابلہ میں سستی ہیں انھیں درآمد کیا جا سکتا ہے مگراسکا فائدہ صرف اسمگلروں تک محدود رکھا جاتا ہے۔
سابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ بجلی کی موجودہ قیمت پیداوار، کاروبار، روزگاراور برآمدات کے لئے زہررساں ہے۔ توانائی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کی تباہ کن پالیسی کی وجہ سے مہنگائی میں کمی اورعوام کے حالات میں بہتری ممکن نہیں۔ مہنگائی سے متعلق سرکاری اعداد وشمارزمینی حقائق کے مطابق نہیں ہیں۔ توانائی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہوتواشیائے ضروریہ کس طرح سستی ہوسکتی ہیں۔ ضرورت کی تمام اشیاء کی قیمت توانائی اور ٹرانسپورٹ کی قیمت سے مشروط ہوتی ہے اورتوانائی مہنگی کرکے عوام کوکسی قسم کا ریلیف دینا صرف بیانات میں ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ بجلی کی قیمتوں اور ان کے اوپر ٹیکسوں نے عوام کوبری طرح متاثرکیا ہے اوروہ اپنے دوسرے ماہانہ اخراجات پورے کرنے کے قابل نہیں رہے ہیں۔ قرض، زیوارت اورگھرکی دیگراشیاء بیچنے کا سلسلہ بھی زیادہ عرصہ تک نہیں چل سکتا نہ ہی ہرمہینے قرضہ لیا جا سکتا ہے۔ اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ بجلی کی قیمتوں نے چالیس فیصد افراد کوخط غربت سے نیچے دھکیل دیا گیا ہے اورانکی تعداد میں اضافہ جاری ہے۔ غربت ختم ہونے کے بجائے غریب ختم ہو رہا ہے۔
ملک بھر کی تجارتی اور صنعتی انجمن اپنے ارکان کے مسائل حل کر نے میں مصروف ہیںلیکن کراچی چیمبر چندتاجر برادری کاکلب بن چکا ہے کراچی چیمبر کے عہدیدارٹی ڈیپ کے سربراہ زبیرموتی والا کے سامنے بول نہیں سکتے اور اگر کوئی بولے گا تو وہ گونگا بنا دیا جائے گا۔
کراچی میں چھوٹے تاجر احتجاج پر اتر آئے،ود ہولڈنگ ٹیکس اور تاجر دوست اسکیم پر ملک کا سب سے بڑا ہول سیل بازار مکمل بند کردیا گیا
ود ہولڈنگ ٹیکس اور تاجر دوست اسکیم پر تاجربرادری کے شدید تغفظات،کراچی میں چھوٹے تاجر احتجاج پر اتر آئے،ود ہولڈنگ ٹیکس اور تاجر دوست اسکیم پر ملک کا سب سے بڑا ہول سیل بازار مکمل بند کردیا گیا۔چھوٹے تاجروں کے احتجاج میں کراچی چیمبر شامل ہوگیا۔صدر کراچی چیمبرافتخار احمدشیخ نے کہا کہ ود ہولڈنگ ٹیکس پر تاجروں کی ہڑتال سمیت ہر احتجاج کی حمایت کرتے ہیں۔ وزیراعظم کو چیئرمین ایف بی آر کو اپنے تحفظات سے آگاہ کردیا ہے، ود ہولڈنگ ٹیکس اور تاجر دوست اسکیم پر کراچی چیمبر چھوٹے تاجروں کے ساتھ ہے،ہم نے ود ہولڈنگ ٹیکس اور تاجر دوست اسکیم پر اعتراض کرکے اناملی بنائی ہے اور اسے وزیراعظم کو بھیج دیا ہے۔صدر کراچی چیمبر نے کہا کہ تاجر دوست اسکیم کو مسترد کرتے ہیں، حکومت 60 ہزار روپے ماہانہ ٹیکس کا ازسرنو جائزہ لے،چھوٹے تاجر کسی صورت اس رقم کو ادا نہیں کرسکتے۔ گروسرز مارکیٹ ایسوسی ایشن کے صدرعبدالرؤف ابراہیم نے کہا کہ 14 اگست کی وجہ سے اجناس منڈیوں کی ہڑتال موخر کی ہے،ہمارے مطالبات نہیں مانے گئیے تو ملک بھر کی غلہ منڈیاں غیر معینہ مدت کے لئیے بند کردینگے۔ راؤف ابراہیم نے کہا کہ اگار تاجروں کے مسائل پر آواز اٹھانا جرم ہے تو میں یہ جرم کرتا رہوں گا۔انہوں نے کہا کہ کراچی چیمبر کی قیادت اسٹیک ہولڈرز کا پروگراموں میں مدعو نہیں کرتی جبکہ کراچی چیمبر کے عہدیدارٹی ڈیپ کے سربراہ زبیرموتی والا کے سامنے بول نہیں سکتے اور اگر کوئی بولے گا تو وہ گونگا بنا دیا جائے گا،زبیرموتی والا نے ہمیں کہا کہ وہ ہم سے نہیں ملیں گے لیکن میں یہ واضح کردوں کہ کراچی چیمبر کو تاجروں کی آواز بننا پڑے گا۔
چھوٹا صنعتکار اپنا کاروبار بند کر چکا ہے، دوہاتھیوں (وفاق اور کے الیکٹرک ) کی لڑائی میں کراچی کے صنعتکار پس رہے ہیں،صنعتوں کیلئے مختص 33 ارب روپے کی سبسڈی جو کہ کورونا کے دور میں صنعتی بحالی کیلئے حکومت نے تین سال کیلئے”کووڈ اضافی یونٹ سبسیڈی” کی مد میں سال 2021-22 میں 22 ارب روپے، سال 2022-23 میں 13 ارب روپے اور سال 2023-24 میں 7 ارب روپے کی سبسڈی منظور کی جو مجموعی طور پر 42 ارب روپے بنتی ہے جس میں سے کراچی کو صرف 7 سے 9 ارب روپے کی سبسڈی جاری کی گئی اور تین سال میں (2021 سے 2023) تک 33 ارب روپے سے زائد کی سبسڈی سے کراچی کو محروم رکھا گیا جبکہ ملک بھر کی دیگر صنعتوں کو یہ سبسڈی جاری کی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی کی صنعتکاروں نے اپنی مصنوعات سستے داموں فروخت کرکے نقصان کیا۔
کراچی کے صنعتکاروں کیلئے اس سبسڈی کی فراہمی میں بے جا تاخیر ہوئی جس کا نقصان براہ راست انڈسٹری کو اٹھانا پڑ رہا ہے، اور کراچی کی انڈسٹری نے مقابلے کی فضاء کے باعث مجبور ہوکر سستے داموں اپنا مال فروخت کرکے نقصان اٹھایا۔ سبسڈی کی وجہ سے ملک بھرکی صنعتوں کو 30 سے 32 روپے فی یونٹ میں بجلی ملی جبکہ کراچی میں وہی بجلی صنعتکاروں کو50 روپے سے زائد میں فراہم کی گئی۔ کراچی کی صنعتوں سے امتیازی سلوک ختم کرتے ہوئے فوری سبسڈی جاری کی جائے تاکہ کراچی کی صنعتیں تباہی سے بچ سکیں۔
بجلی کے بلوں میں پاور ہولڈنگ لمیٹڈ (پی ایچ ایل) چارجز کی مد میں 3.23 روپے جبکہ دیگر سرچارجز میں 1.52 روپے فی یونٹ عائد کئے جارہے ہیں جس میں پی ایچ ایل چارجز گردشی قرضے کی مد میں وصول کئے جارہے ہیں جس میں کراچی کے صارفین کا کوئی عمل دخل نہیں، نیپرا ٹریبیونل کی سماعت میں بھی اعلیٰ حکام اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ گردشی قرضے میں کراچی کا تعلق نہیں۔ 1.52روپے کا سرچارج صرف کراچی سے وصول کیا جارہا ہے جو پاکستان میں کسی اور تقسیم کار کمپنی کے صارفین ادا نہیں کر رہے۔ کراچی کے صارفین پی ایچ ایل اور دیگر سرچارجز ادا کرنے کے باعث سب سے مہنگی بجلی خریدنے پر مجبور ہے جس کے باعث پاکستان کے بزنس حب کراچی کی صنعتیں تباہی کے دہانے پر پہنچ گئیں ہیں۔ جوہر قندھاری نے کہا کہ حکومت ماڑی گیس فیلڈ سے ملنے والی 100 ایم ایم سی ایف ڈی کی اضافی گیس کو فوری طور پر کراچی کے صارفین کیلئے بجلی پیدا کرنے کیلئے فراہم کرے تاکہ بجلی کی پیداواری قیمت میں فوری طور پر 13.98 روپے فی یونٹ کی کمی ہوسکے۔ اس وقت کراچی کیلئے آر ایل این جی سے ملک کی مہنگی ترین بجلی پیدا کی جارہی ہے جو 3600 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو میں دستیاب ہے، جس سے اس وقت بجلی کی پیداواری قیمت 26.93 روپے سے 38 روپے فی یونٹ میں فراہم کی جارہی ہے۔ صدر کاٹی نے کہا کہ اگر ماڑی گیس فیلڈ کی اضافی گیس کے الیکٹرک کو فراہم کی جائے جس کی قیمت 1050 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو بنتی ہے جس سے گیس کی مد میں کراچی کو 2550 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کی بچت ہوگی۔ جوہر قندھاری نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر کے الیکٹرک سے تنازع حل کرکے 33 ارب روپے کی سبسڈی جاری کرے ،کراچی کی صنعتوں کو کاروبار کرنے ، مسابقت اور مقابلے کی فضا فراہم کی جائے تاکہ انڈسٹری کو ہونے والا نقصان ریکور ہو اور صنعتیں دوبارہ ترقی کرکے پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم کر سکیں۔ ڈپٹی پیٹرن ان چیف زبیر چھایا نے کہا کہ حکومت اور کے الیکٹرک کے درمیان اختلافات میں دو ہاتھوں کی جنگ میں صنعتکار پس رہے ہیں، ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ صنعتوں کو سبسڈی فوری طور پر جاری کی جائے وجہ صنعتکار دھرنے اور مظاہروں سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرائے گے۔